عید کے موقعے پر لوگوں کو پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ آج عید کے موقعے پر ٹریجریاں پھر سے خالی پڑی ہیں ۔ اس وجہ سے ان غریب مزدوروں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے جن کی ادائیگیاں رکی ہوئی ہیں ۔ سرکاری کام کرنے والے ان مزدوروں کو ٹھیکہ داروں نے عید پر کسی قسم کی مزدوری دینے سے انکار کیا ہے ۔ ٹھیکہ داروں کا کہنا ہے کہ ان کی بلیں ٹریجریوں میں پڑی ہوئی ہیں ۔ ٹریجری آفیسروں کا کہنا ہے کہ ملازموں کی تنخواہ سے زیادہ انہیں رقوم فراہم نہیں کی جاتی ہیں ۔ اس وجہ سے ادائیگی کرنا ممکن نہیں ہورہاہے ۔ اس سے پہلے رمضان کے مہینے کے اختتام پر ٹھیکہ داروں نے احتجاج کیا تھا اور رقوم کی عدم ادائیگی پر سخت رونا رویا تھا ۔ ان ٹھیکہ داروں کا الزام ہے کہ جب سے لے کر آج تک انہیں واجب الادا رقوم ادا نہیں کی گئیں ۔ اسی طرح ملازموں کا کہنا ہے کہ جی پی فند وغیری کی ادائیگی کے لئے مہینوں انتظار کرنا پڑتا ہے ۔ ان کا الزام ہے کہ ٹریجری آفیسروں کی منت سماجت کے بعد ہی انہیں دو چار لاکھ کی معمولی رقم ادا ہوتی ہے ۔ اسی طرح دوسرے کئی طبقوں کا کہنا ہے کہ ان کی ادائیگی میں دھیری کی جاتی ہے اور رقم موجود نہ ہونے کی وجہ سے ادائیگیوں سے انکار کیا جاتا ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ پچھلے سال سے کچھ بلیں ٹریجریوں میں پڑی ہیں اور مختلف بہانوں سے ایسے رقوم ادا کرنے سے انکار کیا جاتا ہے ۔ بہانہ یہی بنایا جاتا ہے کہ سرکار کی طرف سے ایسی ادائیگیوں کے لئے رقوم فراہم نہیں ہورہی ہیں ۔ یہاں تک کہ لاکھ دو لاکھ کجا ٹریجریاں پچاس ساٹھ ہزار کی رقم ادا کرنیکی پوزیشن میں نہیں ہیں ۔ اس طرح کی صورتحال یقینی طور لوگوں کے لئے باعث تکلیف ہے ۔
ٹریجریوں میں رقوم کی کمی صرف کشمیر میں پائی جاتی ہے یا ملک کے دوسرے علاقوں میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے کچھ بتانا مشکل ہے ۔ سرکاری حلقوں کا دعویٰ ہے کہ ہندوستان دنیا کی اعلیٰ ترین معیشتوں میں شامل ہے ۔ اس کی مالی ترقی کا گراف تیزی سے اوپر کو جارہاہے ۔ لوگوں کی یومیہ آمدنی بڑھ رہی ہے اور غربت میں بہت حد تک کمی آرہی ہے ۔ سرکار لوگوں کے ایک بڑے طبقے کو مفت راشن فراہم کررہی ہے ۔ تعمیرات کا کام بھی بڑی تیزی سے ہورہاہے ۔ اس دوران ٹریجریوں میں رقوم کی کمی بڑی عجیب معلوم ہوتی ہے ۔ معاشی ماہرین نے کہیں بھی سرکار سے اختلاف کرکے معاشی ترقی کے دعوے کو مسترد نہیں کیا ۔ بلکہ ایسے کئی حلقوں کا کہنا ہے کہ ہندوستان بہت جلد ترقی یافتہ ملکوں میں شامل ہوگا اور اسے دوسرے ممالک کی نسبت بہتر معاشی استحکام حاصل ہوگا ۔ دنیا کے ایک درجن سے زیادہ ملک معاشی بدحالی کا شکار ہیں اور ان کے دیوالیہ ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا جارہاہے ۔بلکہ کئی ایک ممالک مبینہ طور اس حد کو پار کرچکے ہیں ۔ اس کے بجائے ہندوستان اپنی معاشی ترقی بحال رکھنے میں کامیاب ہے ۔ تاہم اس وقت مایوسی ہوتی ہے جب معلوم ہوتا ہے کہ یومیہ مزدوری پر اپنا گھر چلانے والوں مزدوروں کو ان کی مزدوری وقت پر نہیں ملتی ہے ۔ کئی حلقے الزام لگاتے ہیں کہ ٹریجری آفیسر جان بوجھ کر رقم کی کمی پیدا کرتے ہیں ۔ اس ذریعے سے انہیں رشوت کمانے کا موقع ملتا ہے ۔ ٹریجریوں میں بلوں کی ادائیگی کے عوض رشوت وصول کرنا پرانی عادت ہے ۔ اندازہ تھا کہ نئے نظام میں ان کی یہ عادت ختم ہوجائے گی ۔ لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آتا ہے ۔ ٹریجریوں میں آج تک اس طرح کی رسم بحال ہے ۔ خاص طور سے بڑے دنوں کے موقعے پر ٹھیکہ داروں سے اپنا حصہ وصول کرنا جائز سمجھا جاتا ہے ۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ ایسی بلیں زیادہ تر فراڈ ہوتی ہیں ۔ جب ٹھیکہ دار فراڈ کرنے سے نہیں ڈرتے تو ایسی بلوں کی ادائیگی پر رشوت لینا کوئی ناجائز کام نہیں ہے ۔ فراڈ بلوں کے ساتھ ساتھ انتہائی جائز بلوں اور ادائیگیوں پر بھی اپنا حصہ طلب کیا جاتا ہے ۔ یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ اس طرح کا ناسور آج تک ہمارے سماج میں پایا جاتا ہے ۔ خاص طور سے ٹریجریوں میں اس کا چلن اب بھی پایا جاتا ہے ۔ جب ایسے سرکاری اداروں میں رشوت کا لین دین تاحال ہورہاہے تو ذیلی آفیسوں میں اس پر روک لگانا ممکن نہیں ہے ۔ سب سے افسوس اس بات کا ہے کہ ایسے غیر آئینی کاموں کا براراست اور سب سے زیادہ اثر غریب مزدوروں پر پڑتا ہے ۔ جب کسی ٹھیکہ دار سے رشوت لی جاتی ہے تو یہ رقم وہ اپنی جیب سے ادا نہیں کرتا بلکہ غریب مزدوروں سے وصول کرتا ہے ۔ ان مزدوروں کو پوری رقم دینے کے بجائے دس بیس فیصد ٹریجری رشوت کے نام پر کاٹی جاتی ہے ۔ کسی مزدور نے جتنے دن کام کیا ہوتا ہے پورا معاوضہ ادا نہیں کیا جاتا بلکہ کچھ دن کاٹ دئے جاتے ہیں ۔ معلوم ہونا چاہئے کہ اس طرح کی رقم کاٹنے سے مزدوروں کے بچوں کا پیٹ خالی رہتا ہے ۔ پھر جب عید کی آمد ہو اور ٹریجریوں سے ادائیگی سے انکار کیا جائے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عام لوگ اور پسماندہ طبقوں کے بچے کیسی عید مناپائیں گے ۔ ان کی عید خوشیوں کی عید نہیں بلکہ دکھ اور تکلیف کی عید ہوگی ۔ اس وجہ سے ہر ذمہ دار شہری کو افسوس ہوتا ہے ۔