عید کے اگلے روز سرینگر سے کھنہ بل تک تین ایسے جان لیوا حادثات پیش آئے جن سے لوگوں کے دل دکھی ہوگئے ۔ کوکرناگ علاقے میں ایک موٹر سائیکل سوار نوجوان کی ٹریفک حادثے میں جان چلی گئی ۔ شمالی کشمیر میں بھی کئی جگہوں پر ایسے حادثات پیش آئے ۔ ادھر ایک لڑکی غرقاب ہوکر موت کی شکار ہوئی ۔ مختلگ جگہوں سے اطلاع ہے کہ آدھ درجن سے زیادہ نوجوان اس روز شدید زخمی ہوگئے ۔ یہ معاملات جاری ہیں اور رکنے کا نام نہیں لیتے ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عید پر ہماری غفلت شعاری اور نازیبا حرکات کی وجہ سے ایسے حادثات پیش آتے ہیں ۔ دوسری طرف ہسپتالوں کی صورتحال یہ ہے کہ ڈاکٹروں سمیت بیشتر طبی عملہ عید منانے کے لئے چھٹی پر ہوتا ہے ۔ فوری اور ضروری امداد فراہم نہ ہونے کے باعث زخمیوں کی جان چلی جاتی ہے ۔ اس تناظر میں ضرورت محسوس کی جارہی ہے کہ ایسے موقعوں پر میڈیکل ایمرجنسی کا اعلان کیا جائے تاکہ ہسپتالوں میں فوری امداد فراہم کرنے کے لئے طبی عملہ موجود ہو اور بلا وجہ لوگوں کی جان نہ چلی جائے ۔
کشمیر میں لوگ اس اعتقاد کے حامل ہیں کہ حادثات کے اندر انسانی اموات اللہ کی مرضی اور اسی کے حکم سے ہوتی ہیں ۔ اس بات سے انکار نہیں کہ ہر شخص کی موت کا وقت اور جگہ مقرر شدہ امر ہے ۔ ایسا سب کچھ اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے ۔ تاہم کئی موقعوں پر موت کو ٹالا جاسکتا ہے ۔ ٹالا نہ بھی جائے تاہم اس کے لئے کوشش ضرور کی جاسکتی ہے ۔ ایسی کوششوں کو ترک کرنا شرعی طور حرام ہے ۔ موت کو اللہ کا امر ماننے کا مطلب یہ نہیں کہ کوشش کو ترک کرکے سب کچھ اللہ کی مرضی پر ڈال دیا جائے ۔ بلکہ اس کے لئے کوشش کرنا بے حد ضروری ہے ۔ آگ لگنے پر اسلام کا یہی فارمولہ کہ جو کچھ بھی ہوتا ہے اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے اختیار کیا جائے تو سب کچھ خاکستر ہوکر رہ جائے گا ۔ بلکہ کئی ان جانوں کے چلے جانے کا اندیشہ ہے جن کو جان جھوکوں میں ڈال کر بچایا جاتا ہے ۔ آگ لگنے پر سب کوشش کرتے ہیں کہ آگ بجھانے کی گاڑی جلد از جلد پہنچ جائے ۔ لوگ آگ بجھانے کے عملے کو طلب کرنے کے لئے فون پر فون لگاتے ہیں ۔ انہیں منت سماجت کے علاوہ رعب و داب بھی کرتے ہیں تاکہ جلد از جلد موقع واردات پر پہنچ جائیں ۔ اس وقت کوئی حکم الٰہی اور اذن خداوندی کا انتظار نہیں کرتا ہے ۔ بس کسی حادثے میں کوئی مرجائے تو فوراََ تقدیر کا سہارا لیا جاتا ہے ۔ اس وقت غفلت شعاری اور ڈاکٹروں کی لاپرواہی کا کوئی نام نہیں لیتا ۔ جو کوئی طبی سہولیات کے فقدان کی بات کرے اسے فوراََ کافر قرار دیا جاتا ۔ دیکھا جائے تو بہت سی اموات طبی سہولیات نہ ہونے اور طبی عملے کی لاپرواہی کی وجہ سے پیش آتی ہیں ۔ خاص طور سے عید کے ایام پر ایسے جو حادثات پیش آتے ہیں ان میں بیشتر زخمی افراد ہلاک ہوجاتے ہیں ۔ ان ہلاکتوں میں ہماری لاپرواہی کے علاوہ طبی عملے کی عدم موجودگی ایک بڑی وجہ ہوتی ہے ۔ عید کے ایام کے دوران بیشتر ڈاکٹر اور ہسپتالوں میں کام کرنے والے ملازم چھٹی پر جاتے ہیں ۔ ہسپتال لگ بھگ خالی ہوتے ہیں ۔ عید منانا ہر کسی کا حق ہے ۔ سرکار اس موقعے پر اپنے ملازموں کو چھٹی دیتی ہے ۔ باقی محکمے کتنے دن چھٹی کریں اس سے زیادہ فرق نہیں پڑتا ہے ۔ لیکن ہسپتالوں میں کام کرنے والوںکو اس طرح سے من مانی کی اجازت دینا اور سارے عملے کو چھٹی پر چھوڑنا انسانی جانوں سے کھیلنے کے مترادف ہے ۔ لوگوں کا خیال ہے کہ عید اور اس کے آس پاس کے دنوں کے دوران ٹریفک حادثات میں زیادہ تعداد میں لوگ اس وجہ سے مرتے ہیں کیونکہ ہسپتال میں انہیں فوری طبی امداد میسر نہیں آتی ہے ۔ حکومت کو چاہئے کا اس کا نوٹس لے کر ایسے موقعوں پر میڈیکل ایمرجنسی کا اعلان کرے اور ضرورت کے مطابق ہسپتالوں میں ڈاکٹروں اور دوسرے عملے کو موجود رکھا جاسکے ۔ اس طرح کی موجودگی از حد ضروری ہے ۔ تاکہ انسانی جانوں کو تلف ہونے سے بچایا جاسکے ۔
کشمیر میں پچھلے کئی سالوں کے دوران عید منانے کا طریقہ یکسر تبدیل ہوچکا ہے ۔ پہلے یہ ایک مذہبی تہوار تھا جس کو لوگ بڑی خوشی اور خیرسگالی سے مناتے تھے ۔ ایک دوسرے کے ساتھ بھرپور انداز میں محبت اور یکجہتی کا اظہار کیا جاتا تھا ۔ لیکن اب یہ مکمل طور اپنا رنگ تبدیل کرچکا ہے ۔ ایک تو مذہبی مبلغوں نے اس کا حلیہ تبدیل کیا ۔ یہ لوگ عید کو ایک ایسی تقریب میں تبدیل کرچکے ہیں جہاں مسلکی اجارہ داری قائم کرنا عید کا منشا رہ گیا ہے ۔ دوسری طرف نوجوان اس کو اپنی کرتب بازی اور دھما چوڑی کا بہترین موقع سمجھ کر اپنی غنڈہ گردی دکھانے کے درپے ہوتے ہیں ۔ ان کے ایسا کرنے کی وجہ سے عید کے دنوں کے دوران حادثات میں کئی گنا اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے ۔ ان باتوں کو مدنظر رکھ کر عید کے موقعوں پر میڈیکل سرگرمیوں میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ بصورت دیگر ایسے متبرک ایام بہت جلد ماتم اور آہ و زاری کے ایام بن جائیں گے ۔