مرکزی وزیر رام سانجھی نے اس بات پر زور دیا ہے کہ چھوٹی صنعتوں کو ترقی دینے کے لئے منظم کوششیں کی جائیں ۔ اس حوالے سے منائے گئے عالمی دن کے موقعے پر انہوں نے ایک تقریب میں بولتے ہوئے کہا کہ ملک کی ترقی کا دارومدار چھوٹی صنعتوں پر ہے ۔ رام سانجھی نے کہا کہ دیہی علاقوں میں ان صنعتوں کے حوالے سے وسیع پیمانے پر کوششوں کی ضرورت ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسی صنعتیں ملک کے علاوہ لوگوں کو خود انحصار بنانے میں مدد گار ثابت ہوتی ہیں ۔ چھوٹی صنعتوں کی اہمیت جتلاتے ہوئے انہوں نے اسے ترقی یافتہ ہندوستان کی طرف بڑھنے کا ایک بڑا قدم قرار دیا ۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ اس حوالے سے سرکار نے بنیادی ضرورتوں کی نشاندہی کی ہے اور بہت جلد اس پر کام شروع کیا جائے گا ۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت اس حوالے سے انتہائی سنجیدہ ہے اور صرف باتوں پر یقین نہیں رکھتی ۔ بلکہ چھوٹی صنعتوں کو فروغ دینے کے لئے ٹھوس کام انجام دیا جائے گا ۔وزیر موصوف نے اس حوالے سے سرکار کی دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے یقین دلیا کہ چھوٹی صنعتوں سے جڑے لوگوں کو ہر قسم کی مدد فراہم کی جائے گی ۔ ان کا ماننا ہے کہ چھوٹی صنعتوں سے دور دراز کے دیہاتوں میں رہنے والوں کو مالی استحکام حاصل ہوتا ہے ۔ ان علاقوں میں رہنے والوں کی مالی آزادی کے لئے چھوٹی صنعتوں کو فروغ دینا ضروری ہے ۔
جموں کشمیر ایک ایسا علاقہ ہے جہاں بہت پہلے سے چھوٹی اور گھریلو صنعتوں کا رواج رہاہے ۔ اس حوالے سے کشمیر ایک ترقی یافتہ علاقہ سمجھا جاتا ہے جہاں کی گھریلو صنعتوں کو قبول عام حاصل تھا ۔ اس طرح سے تیار کیا جانے والا مال عالمی منڈیوں کے علاوہ شاہی خاندانوں میں پسند کیا جاتا تھا ۔ لیکن شخصی حکومت نے ایسی صنعتوں سے جڑے افراد کا استحصال کرتے ہوئے ان کے ساتھ سخت ظلم روا رکھا ۔ کشمیر میں ایسی صنعتیں دیہی علاقوں میں ہی نہیں بلکہ سرینگر شہر میں بھی پائی جاتی تھیں ۔ بلکہ شہر کے ہر گھر میں ایسا کوئی نہ کوئی کام کیا جاتا تھا ۔ خام مال دیہات سے لاکر اس کو شہر میں کار آمد بنایا جاتا تھا ۔ پھر اس مال کو دنیا کے مختلف کونوں میں فروخت کیا جاتا تھا ۔ خاص طور سے برطانیہ کے عروج کے زمانے میں ایسی چیزوں کی بڑے پیمانے پر مانگ رہتی تھی ۔ انگریز دوسرے لوگوں کے مقابلے میں سج دھج کے رہنے کے عادی ہیں اور نازک اشیا کے استعمال کو بہت زیادہ پسند کرتے ہیں ۔ آج کے امیر ممالک کے شہریوں کے مقابلے میں برطانوی شہری خاص طور سے ہاتھ سے بنائی گئی چیزوں کے خریدار رہے ہیں ۔ ان کے ذاتی لباس کے علاوہ ان کے گھروں میں جو سامان پایا جاتا تھا اس کا بڑا حصہ کشمیر میں تیار کئے گئے سامان پر مشتمل رہتا تھا ۔ ان کے زمانے میں گھریلو صنعتوں کو کافی فروغ حاصل ہوا ۔ آزادی کے بعد نصف صدی تک حکومتوں کی توجہ بڑے بڑے کارخانوں اور جدید طرز کی مشینوں پر مرکوز رہی ۔ ایسی حکومتوں میں صنعت کاروں کا اہم رول رہتا تھا ۔ یہ صنعت کار چھوٹی اور گھریلو صنعتوں کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے بیشتر حصوں میں موجود چھوٹی صنعتیں زوال پذیر ہوئیں اور لوگوں نے گھریلو صنعتوں میں کام کرنے کے بجائے کارخانوں میں مزدوری کرنے کو ترجیح دی ۔ کاریگر بڑے کارخانوں میں پہنچ گئے تو قدرتی طور چھوٹی صنعتیں اپنی موت آپ مرگئیں ۔ اس دوران جو نئے خاندان امارت کی طرف بڑھ گئے وہ ایسی اشیا خریدنے کے ساتھ دلچسپی نہیں رکھتے تھے ۔ یہ لوگ اچانک ہی ابھر کر آئے تھے اور انہیں اس طرح کی چیزوں کا کوئی شوق بھی نہیں تھا ۔ پرانے خاندانوں میں ایسی اشیا کی موجودگی کو اعلیٰ شان کی نشانی سمجھا جاتا تھا ۔ اس وجہ سے وہ کوشش کرتے تھے کہ ہر نئے چیز جو بھی تیار ہوجائے سب سے پہلے ان کے گھر پہنچ جائے ۔ یہاں تک کہ ان کی خواتین اس حوالے سے بہت ہی نازک مزاج رکھتی تھیں ۔ کسی بھی شاہی میلے میں آنے کے لئے انہیں نیا لباس اور نئی جیولری پہننے کا شوق تھا ۔ اس وجہ سے ایسے علاقوں میں گھریلواور چھوٹی صنعتوں می تیار ہونے والی اشیا کی قیمت بھی بہتر ملتی تھی ۔ اگرچہ کشمیر میں کئی لوگ اب تک شال دوشالے اور پیپر ماشی کی اشیا تیار کرنے کے کام میں لگے ہوئے ہیں ۔ لیکن مارکیٹ میں ان اشیا کی کوئی خاص مانگ نہیں ہے ۔ اس دوران کئی بار کہا گیا کہ چھوٹی صنعتوں کو فروغ دینے کے لئے حکومت مدد دینے کو تیار ہے ۔ بلکہ کئی ایسی اسکیمیں سامنے لائی گئیں جن سے ایسی صنعتوں سے وابستہ لوگوں کی مالی مدد کی جاسکتی ہے ۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ قرضہ لینے کے بعد جو چیزیں تیار کی جاتی ہیں مارکیٹ پہنچ کر ان کی کوئی خاص قیمت نہیں ملتی ہے ۔ اس وجہ سے لوگ ایسی صنعتوں کو فروغ دینے کے خواب کو کوئی اہمیت نہیں دیتے ہیں ۔ ان کے لئے یہ گھاٹے کا سودا ہے جو کسی طور مالی آمدنی کا ذریعہ نہیں بنایا جاسکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ چھوٹی صنعتوں کو فروغ دینا بہت مشکل ہورہاہے ۔ تاہم حکومت چاہئے تو اس صنعت کو از سر نو زندہ کرسکتی ہے ۔