مرکزی وزیر ڈاکٹر جیتندر سنگھ نے نوجوانوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ سٹارٹ اپس میں سرمایہ کاری کرکے اپنے لئے روزگار کمائیں ۔ سرینگر کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں ایک تقریب میں طلبہ سے خطاب کے دوران انہوں نے سٹارٹ اپس میں سرمایہ کاری کو ایک بہترین روزگار کا وسیلہ قرار دیا ۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح سے نوجوان دوسروں کے دست نگر بننے کے بجائے اپنا روزگار خود کماسکتے ہیں ۔ ڈاکٹر جیتندر نے واضح کیا کہ سرکار ہر کسی کو نوکری فراہم نہیں کرسکتی ہے نہ تمام لوگوں کو روزگار فراہم کرسکتی ہے ۔ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سرکار کی طرف سے شروع کئے گئے سٹارٹ اپس سے ملک کی معیشت پربڑے اثرات پڑ رہے ہیں اور لوگ اپنا روزگار کمانے کے اہل ہورہے ہیں ۔ وزیر موصوف نے سرکار کے ان اقدامات کی تعریف کرنے کے علاوہ اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ نوجوانوں کی ذہنیت میں تبدیلی آرہی ہے اور بیشتر نوجوان دوسروں سے روزگار کا سہارا لینے کے بجائے اپنے لئے روزگار کے وسائل خود تلاش کررہے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کے تعاون سے ملکی معیشت میں ترقی ہورہی ہے اور عالمی مالی منظر نامے پر ہندوستان ایک مضبوط معیشت کے روپ میں ابھر رہاہے ۔ انہوں نے امید کا اظہار کیا کہ یہ رفتار جاری رہے گی اور نوجوان اس طرح سے آگے بڑھنے میں کامیاب ہونگے ۔
یہ بات صحیح ہے کہ سرکار تمام نوجوانوں کو روزگار فراہم نہیں کرسکتی ہے ۔ سرکار کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ ہر شہری کی مالی ضرورت کو پورا کرسکے ۔ اس حوالے سے یہ بات بڑی حد تک درست ہے کہ نوجوانوں کو اپنے وسائل خود تلاش کرنا ہونگے تاکہ اپنے لئے روزگار حاصل کرسکیں ۔ سرکار کئی بار کہہ چکی ہے کہ نجی سیکٹر کو فروغ دے کر روزگار تلاش کیا جاسکتا ہے ۔ کشمیر میں بدقسمتی سے لوگ اپنا روزگار خود کمانے کے بجائے سرکاری نوکریوں کی تلاش میں رہتے ہیں ۔ خاص طور سے پڑھے لکھے نوجوان کوئی کام یا کاروبار کرنے کو تیار نہیں ۔ اگرچہ پچھلے کچھ سالوں کے دوران کئی نوجوانوں جن میں خواتین بھی شامل ہیں اپنا کاروبار شروع کرکے بہتر روزگار کمانے میں کامیابی حاصل کی ۔ ایسے کئی افراد اس طرح کی کوششوں کو حوصلہ افزا قرار دے رہے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ کوشش کرکے روزگار حاصل کرنا ناممکن نہیں ہے ۔ تاہم نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد مایوسی کی شکار ہے ۔ایسے نوجوان اپنا روزگار خود کمانے کے بجائے سرکار نوکریوں کی تلاش میں رہتے ہیں ۔ اس وجہ سے ان کی زندگی کا اہم حصہ ضایع ہوکر رہ جاتا ہے اور روزگار کا کوئی مضبوط وسیلہ تلاش کرنے میں ناکام رہتے ہیں ۔ یہاں یہ بات بتائی گئی ہے کہ سرکاری نوکوری سے بہتر روزگار کا کوئی دوسرا وسیلہ نہیں ہے ۔ یہ غلط بھی نہیں ہے ۔ خاص طور سے آرام طلب لوگوں کے لئے اس سے بہتر اور آسان روزگار کمانا ممکن نہیں ۔ گھر بیٹھے مسلسل آمدنی صرف اور صرف سرکاری نوکری سے حاصل کی جاتی ہے ۔ بغیر کسی کام کے آسانی سے مسلسل آمدنی سرکاری نوکری کے بغیر حاصل نہیں کی جاسکتی ہے ۔ اس معاملے میں پچھلی سرکاروں کا رول بھی ایسا ہی رہاہے ۔ اپنا ووٹ بینک بنانے اور محفوظ رکھنے کے لئے ہر سرکار اپنی پسند کے نوجوانوں کو بغیر کسی قانون اور قاعدے کے نوکریاں فراہم کرتی رہیں ۔ اس دوران سرکاری ملازمین کو کام کرنے کی ترغیب دینے کے بجائے انہیں رشوت ستانی سے خوب کمائی کا موقع بھی دیا گیا ۔ سرکاری ملازم بغیر کسی ڈیوٹی کے ہر ماہ تنخواہ وصول کرتے رہے ۔ ان کا کبھی احتساب کیا گیا نہ کسی طرح سے کام کرنے پے زور دیا گیا ۔اس وجہ سے کشمیر میں ایسا کلچر بن گیا جہاں سرکاری سیکٹر کو ہی سب کچھ سمجھا جانے لگا ۔ اس وجہ سے کوئی وسیع نجی سیکٹر یہاں ابھر نہیں سکا ۔ اب ایک ایسے مرحلے پر نوجوانوں کو نجی سیکٹر کو فروغ دینے پہ زور دیا جارہاہے جب حالات ان کے لئے زیادہ سازگار نہیں ۔ اس دوران بہت سے نوجوانوں نے کئی طرح کے کاروبار کرکے ایک بہتر مثال قائم کی ۔ ایسے کئی نوجوان نہ صرف خود روزگار کماسکے بلکہ دوسروں کو بھی کام فراہم کرکے ان کے لئے روزگار پیدا کررہے ہیں ۔ تاہم اس سوچ کو ابھی بہت زیادہ فروغ نہیں ملا ہے ۔ اصل میں نوجوانوں کے پاس ایسا کوئی اصل زر ہی نہیں ہے جس کو لے کر یہ اپنا کاروبار شروع کرسکیں ۔ سٹارٹ اپس یقینی طور ایک بہتر پالیسی ہے جس کو استعمال کرکے مالی ترقی کو ممکن بنایا جاسکتا ہے ۔ لیکن اس معاملے میں متعلقہ اداروں کا رول ہرگز مثبت نہیں ہے ۔ سرکاری اسکیموں کا کوئی فائدہ پہنچانے کے بجائے یہاں بھی نوجوانوں کے ساتھ بہتر رویہ اپنایا نہیں جاتا ہے ۔ خاص طور سے بینکوں کا قرضہ ملنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ۔ اس حوالے سے یہ مشورہ دینا کہ نوجوان سرکار کی طرف سے لانچ کئے گئے سٹارٹ اپس کا فائدہ اٹھائیں اور سرمایہ کرکے اپنا روزگار کمائیں بے جا معلوم ہوتا ہے ۔ اس طرح سے کام کرنا معیوب نہیں بلکہ ایک حوصلہ افزا بات ہے ۔ تاہم اس کے لئے درکار ماحول کے علاوہ بہتر مارکیٹ فراہم کرنا ضروری ہے ۔ تاکہ مال دکانوں اور اسٹروروں میں پھنس کر نہ رہ جائے ۔