حجاج کرام کے قافلے سعودیہ سے مسلسل گھر واپس پہنچ رہے ہیں ۔ یہاں آکر وہ اطمینان کا سانس لے رہے ہیں ۔ حجاج کا کہنا ہے کہ حج کے دوران انہیں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔اس سال کئی سو حاجی صاحبان کی موت واقع ہوئی ۔ شدید گرمی اور حبس کی وجہ سے ایسی صورتحال پیش آئی ۔ کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ ان اموات کو ٹالا جاسکتا تھا اگر بہتر انتظامات کئے جاتے ۔ ان کا الزام ہے کہ حاجیوں کو اللہ کے رحم و کرم پر چھوڑا گیا اور نظم وضبط کے سخت فقدان کی وجہ سے اتنے لوگ مارے گئے ۔ حکام نے ان الزامات کا انکار نہیں کیا ہے بلکہ چپ سادھ لی ہے ۔ اس وجہ سے پورے عالم اسلام میں سخت تشویش پائی جاتی ہے ۔ اس سے پہلے بھی حجاج کرام کئی مسائل کے حوالے سے تحفظات پیش کرتے رہے ہیں ۔ لیکن آج بڑے پیمانے پر شکایات سامنے لائی جارہی ہیں ۔ حجاج کا کہنا ہے کہ حج ارکان ادا کرنے کے دوران انہیں ایسے مسائل کا سامنا رہا جن کی وجہ سے پورا سفر سخت تکلیف دہ ثابت ہوا ۔ حج کے لئے عازمین سے اچھی خاصی رقم وصول کی جاتی ہے ۔ بلکہ پچھلے کئی سالوں کے دوران بہتر انتظامات کے نام پر عازمین حج سے وصول کی جانے والی رقم میں مسلسل اضافہ کیا جاتا رہا ۔ لیکن انتظامات میں مبینہ طور کوئی خاص بہتری دیکھنے کو نہیں ملی ۔ سفر حج پر جانے والے بیشتر افرادمایوسی کا اظہار کررہے ہیں ۔ انہوں نے سفر پر آنے جانے کے حوالے سے بھی شکایات کا اظہار کیا ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ حکام ان کی ایسی شکایات سننے کو تیار ہیں اور نہ ان کے ازالہ کی طرف توجہ دی جارہی ہے ۔
رواں سال کے حج شروع ہونے سے پہلے ہندوستان کی طرف سے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے سعودیہ کا دورہ کیا ۔ بلکہ اس وفد نے مسجد نبوی جاکر بھی حجاج کے لئے کئے جانے والے انتظامات کا جائزہ لیا ۔ وفد کے اس دورے کو لے کر کافی تشہیر کی گئی ۔ اس سے امید پیدا ہوگئی تھی کہ حجاج کے لئے شاہانہ طرز کے انتظامات ہونگے ۔ لیکن یہ جان کر بڑی مایوسی ہوئی کہ حسب سابقہ پیسے اینٹھنے کے سوا انتظامات میں کسی طرح کی کوئی بہتری دیکھنے کو نہیں ملی ۔ یہاں صورتحال یہ ہے کہ سیر و تفریح کے لئے آنے والے سیاحوں کو آرام پہنچانے کی ہر طرح کی کوششیں کی جارہی ہیں ۔ ہر ملک سیاحت کے ڈھانچے کو ترقی دینے اور سیاحوں کو بہتر سے بہتر سہولیات پہنچانے کی کوشش کررہاہے ۔ سعودیہ حکام کی کوشش ہے کہ حج کو محض مذہبی فریضہ تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ تاریخی مقامات کو سیاحتی نقشے پر لاکر اسے ایک وسیع سیاحتی مرکز بنایا جائے ۔ اس غرض سے ایران ، مصر اور ہندوستان کے علاوہ دیگر کئی ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ یہ ایک حوصلہ افزا بات ہے کہ سعودی حکام تنگ دائرے سے نکل کر وسیع سیاحتی نقشے کو منظر عام پر لارہے ہیں ۔ تاہم اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے کہ یہاں کے حکام مسلمانوں کے دو بڑے مرکزوں کے سرپرست ہیں ۔ اس حیثیت کو لے کر یہ حکام کئی دہائیوں سے عام مسلمانوں کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں اور بڑے پیمانے پر ان کا استحصال کررہے ۔ ملک کے آزادی پسند عوام شہنشاہیت سے نجات حاصل کرکے حکومتی نظام میں تبدیلی چاہتے ہیں ۔ ان لوگوں کی اس وجہ سے حمایت نہیں کی جاتی ہے کہ مسجد حرام اور مسجد نبوی کے کلید برداروں کے خلاف آواز اٹھانا دین کے خلاف سمجھا جاتا ہے ۔ حالانکہ اس کا دین کے ساتھ دور کا بھی واسطہ نہیں ہے ۔ یہ وہاں کے عوام اور حکومت کا معاملہ ہے ۔ تاہم یہ بات افسوسناک ہے کہ حج کے لئے آنے والے اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی بنیادی سہولیات کو نظر انداز کیا جارہاہے ۔ اس ذریعے سے وہاں کی حکومت اور حج صنعت سے جڑے لوگوں کو کافی سرمایہ میسر آتا ہے ۔ اس سرمایہ کو حاصل کرنا ان کا حق ہے ۔ تاہم اس کے عوض جو سہولیات میسر رکھنا لازمی ہے ان کو کسی بھی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ اس سے پہلے کہ لوگ اس طرح کی سہولیات کے خلاف آواز اٹھائیں حکومتوں کو چاہئے کہ حج انتظامات میں بہتری لائیں ۔ لوگ زیادہ دیر تک اس صورتحال کو برداشت نہیں کرسکتے ہیں ۔ لوگوں نے پہلے ہی حج کرنے سے احتراز کرنا شروع کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس سال حج کا کوٹا پورا نہیں ہوا اور کم تعداد میں لوگوں نے حج فارم بھردئے ۔ اس حوالے سے فوری اقدامات کی ضرورت ہے ۔ اتنا ہی نہیں کہ سعودی حکام کی طرف سے حج انتظامات میں نااہلی دکھائی گئی بلکہ مقامی حج کمیٹیوں کے حوالے سے بھی شکایات سامنے لائی جارہی ہیں ۔ حجاج کے ساتھ خدام کے نام پر کئی سو سرکاری اہلکاروں کو وفود کی صورت میں سعودیہ بھیجا جاتا ہے ۔ وہاں جاکر یہ اہلکار خدام کے بجائے نواب بن کر رہتے ہیں اور حجاج کے لئے کوئی خدمت ہرگز انجام نہیں دیتے ۔ بلکہ ان کے حجاج کے ساتھ مبینہ طور سرے سے کوئی رابطہ نہیں رہتا ۔ کوئی حاجی ان سے مدد لینے کی کوشش کرے تو ناکام رہ جاتا ہے ۔ اس لئے چاہئے کہ مقامی سطح پر حجاج کو بہتر سہولیات فراہم کی جائیں ۔ پھر جاکر سعودی حکام کے سامنے اصل صورتحال لائی جائے تاکہ سفر کو بہتر بنایا جاسکے ۔