کشمیر کے سیب کے باغوں میں مبینہ طور کئی نئی بیماریاں نمودار ہوئی ہیں ۔ پہلے بیماریاں میووں مین لگ جاتی تھیں ۔ لیکن اب پھپھوندی کے علاوہ کچھ دوسری بیماریاں درختوں ، ان کی شاخوں اور پتوں پر نمودار ہوئی ہیں ۔ ان بیماریوں کے وجہ سے میووں کے ساتھ ساتھ اب میوہ درخت بھی تباہ ہورہے ہیں ۔ باغ مالکان اس وجہ سے سخت پریشان ہیں اور کوئی حل تلاش کرنے میں ناکام ہورہے ہیں ۔ ماہرین کسانوں کی کوئی مدد کرنے سے قاصر ہیں ۔ یہ نئی بیماریاں باغوں کو تباہ و برباد کرنے کا باعث بتائی جاتی ہیں ۔ عجیب بات ہے جو باغ مالک پچھلے کئی سالوں سے کشمیر ایگریکلچر یونیورسٹی کی طرف سے تسلیم شدہ ادویات استعمال کررہے ہیں ان کے باغ بھی نئی بیماریوں سے متاثر ہورہے ہیں ۔ ان بیماریوں کے بچائو کے حوالے سے سکاسٹ SKUAST کی طرف سے خاموشی اختیار کی گئی ہے ۔ تاہم ادویہ فروش باغ مالکان کو اپنی تجویز پر انتہائی قیمتی دوائیں فراہم کررہے ہیں اور کسان مجبور ہوکر ان کے کہنے پر عمل کررہے ہیں ۔ بازار میں کوئی ایسی خوفناک دوائی فروخت ہورہی ہے جس کے ساتھ بچائو کے لئے پورے جسم کو ڈھانپنے کی وردی یہاں تک کہ آنکھوں پر لگانے کے لئے چشمے بھی فراہم کئے جاتے ہیں ۔ یہ اب تک کہ سب سے قیمتی اور خطرناک دوائی بتائی جارہی ہے جس کے استعمال کا باغ مالکان کو مشورہ دیا جارہے ۔ باغ مالکان مجبور ہوکر ایسی دوائیں خرید کر اپنے باغوں میں چھڑک رہے ہیں ۔ ان کے پاس باغوں کو بچانے کا دوسرا کوئی طریقہ نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایسی ادویات کو خرید رہے ہیں ۔ انہیں اس حوالے سے کوئی گائیڈ کرنے کو موجود نہیں ۔
کشمیر کے باغ مالکان کی یہ بدقسمتی ہے کہ انہیں ماہرین کے مشورے دستیاب نہیں ہے ۔ بہ ظاہر باغبانی کے حوالے سے اگریکلچر ، ہارٹیکلچر اور دوسرے کئی سرکاری محکمے کام کررہے ہیں ۔ اس کے علاوہ SKUAST کے نام سے ایک یونیورسٹی بھی قائم ہے جہاں ریسرچ کے کام پر کروڑوں روپے صرف کئے جارہے ہیں ۔ لیکن یہ تمام ادارے کسانوں اور باغ مالکان کی کوئی مدد کرنے میں بری طرح سے ناکام ہورہے ہیں ۔ اس طرح کے ادارے پہلے ہی شالی کی کاشت کو بیماریوں سے بچانے اور اس حوالے سے فصل کی پیداوار بڑھانے میں ناکام رہے ۔ یہاں تک کہ کسانوں نے شالی کی کاشتکاری کو بہت حد تک ترک کرکے باغبانی کی طرف شفٹ کیا ۔ لیکن اس شعبے کے حوالے سے بھی سخت مایوس نظر آرہے ہیں ۔ مذکورہ یونیورسٹی کسانوں کو شالی کے ایسے بیج تیار کرکے فراہم کرنے میں ناکام رہے جو مقامی موسم کے اعتبار سے بہتر ثابت ہوجائیں ۔ یہی وجہ ہے کہ کسان اب تک چینا یا کسی اور ملک میں تیار کی گئی شالی کے بیجوں پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں ۔ ان کے کشمیر نام ضرور ہیں ۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی یہاں تیار نہیں کی گئی ہے ۔ اب باغ مالکان کے ساتھ اسی طرح کی فریب کاری کی جارہی ہے ۔ باغ مالکان سوشل میڈیا اور ادویات فروخت کرنے والوں کے مشوروں پر باغ بچانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ لیکن ایسے مشورے اکثر ناکام ثابت ہورہے ہیں ۔ اس وجہ سے ایک طرف ان کے اخراجات بڑھ رہے ہیں دوسری طرف فصلوں کے علاوہ درختوں مین نئی بیماریاں جنم لے رہی ہیں ۔ اس صورتحال کی آڑ میں ان کا بڑے پیمانے پر استحصال کیا جارہاہے ۔ باغوں سے وابستہ لوگوں کی زیادہ توجہ سیب کی فصل پر لگی رہتی ہے ۔ ان کے نرخوں کے حوالے سے بہت سے حلقے بڑے حساس نظر آتے ہیں۔ اس دوران ایسے دوسرے میوے نظر انداز ہورہے ہیں جو یہاں بڑی مقدار میں تیار ہوتے ہیں ۔ لیکن ان کی مناسب قیمت نہیں ملتی ہے ۔ سب سے عجیب بات یہ ہے کہ ہر علاقے میں جو نام نہاد منڈیاں قائم کی گئی ہیں وہ کسانوں کے لئے ٹارچر کے بڑے مرکز بن گئے ہیں ۔ سرکار نے ان منڈیوں کو قائم کرنے کے لئے لوگوں کے زیر قبضہ سرکاری اراضی بلکہ کاہ چرائی تک چھڑائی ۔ عام لوگوں کو خوش کرنے کے لئے یہاں میوہ منڈیاں قائم کی گئیں ۔ کسانوں کو بتایا گیا کہ ان کے قیام سے انہیں کافی راحت میسر آئے گی ۔ ٹین کے ٹوٹے پھوٹے شیڈ قائم کرکے ان پر میوہ منڈیوں کے بورڈ لگادئے گئے ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ان منڈیوں میں کوئی میوہ خریدنے والے بیوپاری نہیں بلکہ کمیشن ایجنٹ بیٹھے ہوئے ہیں ۔ یہ کمیشن ایجنٹ کھلے عام کسانوں سے دھوکہ دہی کررہے ہیں ۔ اونے پونے بھائو پر ان سے میوے خریدتے ہیں اور خود کافی پیسے کماتے ہیں ۔ ایسے لوگ کسانوں کو میووں کی قیمت کی ادائیگی میں بڑی تاخیر سے کام لیتے ہیں ۔ لیکن کئی لوگوں کے پیسے ہڑپ کرجاتے ہیں ۔ جن زمینوں پر ایسی منڈیاں قائم کرکے کسانوں پر تو احسان کیا گیا ۔ اب معلوم ہوتا ہے کہ کسانوں کے زیر قبضہ رہتے وئے اس اراضی سے یہ لوگ اچھی خاصی کمائی کرتے تھے ۔ سرکار کو ایسی اراضی چھڑانے سے کچھ ملا اور نہ کسانوں کا کوئی بھلا ہوسکا ۔ یہ بڑی نادانی کی بات ہوئی ۔ کسانوں کا سرکار اور نجی اداروں سے بڑے پیمانے پر دھوکہ ہورہاہے جس نے کسانوں کی آمادنی کو بہت حد تک متاثر کیا ہے ۔ یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے ۔ خدشہ ہے کہ ایسی صورتحال جاری رکھنے سے یہاں کے کسان بھی خود کشی کرنے پر مجبور ہونگے ۔