موسمیاتی تبدیلی کے وادی پر خطرناک اثرات پڑرہے ہیں ۔ درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ نظر انداز کرنے والی بات نہیںہے ۔ مسلسل خشک سالی کی وجہ سے پانی کی شدید قلت محسوس کی جارہی ہے ۔ کئی علاقوں میں زیر کاشت زمین کی سینچائی کے لئے پانی میسر نہ آنے کی وجہ سے فصلوں کو سخت نقصان پہنچ رہاہے ۔ چراگاہوں کو جانے والے بکر والوں کا کہنا ہے کہ گھاس سوکھ چکی ہے اور وہاں لئے گئے جانور کھانے پینے کی اشیا کی شدید قلت محسوس کررہے ہیں ۔ بالائی علاقوں میں کاشت کی جانے والی فصلوں کو بڑا نقصان ہورہاہے ۔ دالوں اور مکئی کی کاشت بری طرح سے متاثر بتائی جاتی ہے ۔سب سے زیادہ تشویش شالی کی کاشت سے متعلق ظاہر کی جارہی ہے ۔ ایسے کسانوں کا کہنا ہے کہ ان کے کھیت سوکھ گئے ہیں اور کھیتوں میں کئی ہفتوں سے پانی بھرنا ممکن نہیں ہورہاہے ۔ کھیتوں کے لئے موجود سینچائی کی نہریں اور دوسرے ندی نالے خشک ہوچکے ہیں اور چاول کی پیدوار کے حوالے سے سخت مایوسی کا اظہار کیا جارہاہے ۔ ادھر مچھلیوں کی پیداوار کے حوالے سے بھی سخت تشویش کا اظہار کیا جارہاہے ۔ مچھلی پالن اور اس کے کاروبار سے وابستہ لوگ پریشانیوں میں مبتلا نظر آرہے ہیں ۔اسی طرح سبزیوں کی پیداوار پر بھی موسم کے منفی اثرات پڑرہے ہیں ۔ اس کے نتیجے میں بازار میں سبزیوں کی قیمتیں آسمان کو چھوتی نظر آرہی ہیں ۔ ان مسائل سے نجات حاصل کرنے کے لئے لوگوں کو سہارا دینے کے لئے کوئی متبادل ذریعہ نہیں ہے ۔ کئی علاقوں میں پینے کے پانی کے مسائل کو لے کر لوگوں نے احتجاج بھی کیا ۔ انتظامیہ نے احتجاج کرنے والوں سے نمٹ لیا ۔ تاہم بنیادی مسائل اپنی جگہ برقرار ہیں اور ان سے چھٹکارا پانے کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہاہے ۔ اپنی نوعیت کی شدید گرمی کی وجہ سے لوگوں کے لئے دن گزارنا انتہائی مشکل ہورہاہے ۔ آئے دن کے مسائل کم ہونے کے بجائے بڑھ رہے ہیں ۔ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ بارش نہ ہوئی تو آنے والے دنوں میں مسائل میں مزید اضافہ ہوگا ۔ انتظامیہ نے ان مسائل سے نمٹنے کا کیا پروگرام بنایا ہے تاحال معلوم نہیں ۔
کشمیر میں بہ ظاہر آبی وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے ۔ لیکن پانی کو ذخیرہ کرنے اور لوگوں کے لئے محفوظ بنانے کی کوئی سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئی ۔ یہاں انی کو بجلی بنانے کے منصوبوں تک محدود رکھا جارہاہے ۔ ملک کو پن بجلی کی سخت ضرورت ہے ۔ ملک کے کئی حصوں کو شمالی گرڈ سے جو بجلی فراہم کی جاتی ہے اس کا بہت سا حصہ کشمیر کے پن بجلی پروجیکٹوں سے تیار کیا جاتا ہے ۔ اس دوران کشمیر کے عوام کو بجلی ضرورت کے مطابق فراہم ہوتی ہے نہ پانی کی کمی کو دور کیا جاسکا ہے ۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ بجلی تیار کرنے کے علاوہ کوئی ڈیم نہیں بنائے گئے ۔ پانی کو ذخیرہ کرنے اور بجلی کے علاوہ دوسرے کاموں کے استعمال کرنے کی طرف توجہ دی جاتی تو آج ایسی صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ۔ یہاں یہ خیال بھی رہے کہ رواں سال کے موسم سرما میں برف باری بہت کم ہوئی ۔ بلکہ چلہ کلان کے دوران سرے سے کوئی برف نہیں گری اور برف باری کے حوالے سے ان اہم کے دوران سخت خشک سالی کا سامنا رہا ۔ بعد میں برف گری تو بہت جلد پگھل گئی اور گلیشئر نہیں بن پائے ۔ اس وجہ سے آج زیر زمین پانی کی کمی محسوس کی جارہی ہے ۔ چشموں اور تالابوں میں پانی کی سطح بہت نیچے تک چلی گئی ہے ۔ پانی کے ان وسائل کو استعمال میں لاکر واٹر سپلائی کی جو اسکیمیں بنائی گئی ہیں وہ ناکام ہوتی دکھائی دیتی ہیں ۔ قدرتی وسائل کی بنیاد پر بنائی گئی ان اسکیموں کی پائیداری کی کوئی گارنٹی نہیں دی جاسکتی ہے ۔ ایسے وسائل پوری دنیا میں کم یا زیادہ ہورہے ہیں ۔ ان وسائل پر موسمیاتی تبدیلی کا اثر پڑنا یقینی ہے ۔ ایسے وسائل کو کام میں لانے کے ساتھ ساتھ پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے ڈیم بنانا لازمی ہے ۔ جس کا کوئی تصور یہاں نہیں پایا جاتا ہے ۔ سال کے ابتدائی دنوں میں جب گرمی ابھی نہیں بڑھ گئی تھی جو پانی بہہ کر ضایع ہہوگیا اس کو ذخیرہ کیا گیا ہوتا تو آج مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ۔ حکومت اس حوالے سے ابھی تک خواب خرگوش میں مست ہے ۔ لوگوں کی طرح سرکار بھی معجزات کا انتظار کررہی ہے اور اپنے عوام کو بارشوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر اپنے کام میں مشغول ہے ۔ اس بات کی کسی کو فکر نہیں کہ آنے والے ایام پہلے سے زیادہس خت اور دشوار ہونگے ۔ آنے والی نسلوں کو اس حوالے سے جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا ان کا تصور کرنا انسان کو لرزا دیتا ہے ۔ اس حوالے سے منصوبہ بندی نہ کی گئی تو کشمیر کو ریگستان میں تبدیل ہوتے دیر نہیں لگے گی ۔ ماہرین نے پہلے ہی خبردار کیا ہے کہ بڑھتے درجہ حرارت میں کوئی کمی نہیں آئے گی ۔ بلکہ اگلے دس سالوں کے دوران اوسط درجہ حرارت میں دو تین ڈگریوں کا اضافہ ہوگا ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کشمیر کا درجہ حرارت چالیس ڈگری تک پہنچ سکتا ہے ۔ واقعی ایسی صورتحال پیش آئے تو عوام کے لئے زندہ رہنا انتہائی مشکل ہوگا ۔ ہر گھر نل کا نعرہ بڑا خوش آئند نعرہ ہے ۔ تاہم اس کی بنیادوں کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے ۔ یہ جب ہی ممکن ہے کہ پانی کو ذخیرہ کرنے کے بڑے بڑے ڈیم بنائے جائیں اور ایسے ڈیم ہر علاقے میں بن جانے چاہئے ۔