جموں کشمیر میں ہورہے اسمبلی انتخابات کے پہلے مرحلے کے لئے بدھ کو ووٹ ڈالے گئے ۔ اس مرحلے پر چناب وادی سمیت جنوبی کشمیر کے بیشتر حلقوں کے لئے پولنگ ہوئی ۔ بہت سے حلقوں میں توقع سے زیادہ ووٹ ڈالے گئے جبکہ کچھ جگہوں پر اوسط درجے کی پولنگ ہوئی ۔ شام کو دئے گئے اعداد و شمار کے مطابق کہیں 70 فی صد اور کہیں 50 فیصدپولنگ ہوئی ۔ اس حوالے سے کئی ایسے حلقوں کی نشاندہی کی جارہی ہے جہاں پچھلے انتخابات میں بہت کم ووٹ ڈالے جاتے تھے ۔ لیکن رواں انتخابات کے دوران یہاں بھی بہتر پولنگ شرح ظاہر کی جارہی ہے ۔ پہلے مرحلے کے ان انتخابات میں کل24 اسمبلی حلقوں میں ووٹ ڈالے گئے جہاں مختلف پارٹیوں کے علاوہ آزاد امیدواروں سمیت 219 امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ ہورہاہے ۔ پہلے مرحلے کی ووٹنگ کے لئے تمام امیدواروں نے بڑے پیمانے پر انتخابی مہم چلائی ۔ اس دوران لوگوں سے خوش نما وعدے کئے گئے اور امیدواروں نے ایک سے بڑھ کر ایک حربہ ووٹروں کو راغب کرنے کے لئے استعمال کیا ۔ اب یہ اگلے مہینے معلوم ہوگا کہ کون سا امیدوار دوسروں پر سبقت لینے میں کامیاب رہاہے ۔ ایسے بہت سے امیدواروں کو بھارتی جنتا پارٹی ، این سی اور پی ڈی کیسرپرستی حاصل ہے ۔ کانگریس کے علاوہ عوامی اتحاد پارٹی نے بھی اپنے امیدوار میدان میں اتارے ہیں ۔ جماعت اسلامی کی حمایت سے پلوامہ میں ایک اور کولگام میں چار امیدوار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں ۔ جن نمایاں امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ طے پایا ہے ان میں پی ڈی پی کی التجا مفتی ، این سی کی سکینہ ایتو اور کیمونسٹ لیڈر یوسف تاریگامی کے علاوہ جی ایم سروری شامل ہیں ۔ ایسے دیگر امیدواروں میں خلیل بندھ کے مقابلے میں یوتھ لیڈر وحیدالرحمٰن پرہ اور سابق ہائی کورٹ جج حسنین مسعودی کے مدمقابل ظہور میر کھڑا ہے ۔ بندھ اور میر اس سے پہلے تین تین بار اسمبلی انتخابات جیت چکے ہیں ۔ اسی طرح کانگریس کے جی اے میر ، وقاص رسول اور پیرزادہ سعید کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ بدھ وار کی ووٹنگ سے طے پائے گا ۔ کانگریس کے ان امیدواروں کو این سی کی حمایت بھی حاصل ہے ۔ حالانکہ وقاص رسول کے مقابلے میں این سی کا امیدوار بھی کھڑا ہے جسے دوستانہ مقابلے کا نام دیا گیا ہے ۔ بی جے پی کے جو نمایاں امیدوار بدھ کو ہوئی پولنگ کے نتائج کا انتظار کررہے ہیں ان میں شگھن پریہار اور صوفی یوسف کا نام لیا جارہاہے ۔ نتائج کچھ بھی ہوں تاہم لوگوں کی ووٹنگ میں شرکت کو الیکشن کمیشن کی طرف سے بہت ہی حوصلہ افزا قرار دیا گیا ہے ۔
رواں اسمبلی انتخابات کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ہیں ۔ پانچ سال پہلے جموں کشمیر کا ریاستی درجہ ختم کیا گیا ۔ انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں نے لوگوں سے بہت سے ممکنہ اور ناممکن وعدوں کے ساتھ جموں کشمیر یوٹی کو ریاستی درجہ واپس دلانے کا وعدہ کیا ہے ۔ اس حوالے سے امکان ظاہر کیا جارہاہے کہ انتخابات کے نتائج سامنے آنے اور نئی حکومت بننے کے بعد اس معاملے کو حتمی طور طے کیا جائے گا ۔ ایک ایسے مرحلے پر جبکہ دنیا بھر میں کساد بازاری بڑھ رہی ہے اور نوجوانوں کو بے روزگاری کا مسئلہ درپیش ہے سیاسی جماعتوں نے نوجوانوں کو سرکاری نوکریاں فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے ۔ اسی طرح مفت بجلی ، رسوئی گیس اور بے روزگاری کا الائونس دینے کا وعدہ بھی کیا گیا ہے ۔ ان وعدوں کی وجہ سے نوجوانوں کو انتخابات کے ساتھ دلچسپی بڑھ گئی ہے ۔ انتخابی مہم کے دوران زیادہ تر نوجوانوں نے اہم رول ادا کیا ۔ یہ وعدے پورے نہ ہوئے تو نوجوانوں کا مستقبل سخت مشکلات سے دوچار ہوگا ۔ بی جے پی کے بغیر جن سیاسی پارٹیوں نے لوگوں سے اس طرح کے وعدے کئے ہیں ان پر انگلی اٹھائی جاتی ہے کہ محض ووٹ حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ۔ یہاں کوئی ایسے وسائل نہیں پائے جاتے جن کو استعمال میں لاکر شہد اور دودھ کی وہ ندیاں بہائی جاسکیں جن کا عوام سے وعدہ کیا گیا ہے ۔ بی جے پی کی سرکار یہاں بن جائے تو اس کو مرکزی سرکار کی سرپرستی حاصل ہوگی ۔ وہاں سے امداد حاصل کرکے عوام سے کئے گئے وعدے پورے کئے جاسکتے ہیں ۔ بی جے پی کی یہ تاریخ ہے کہ الیکشن کے دوران جو بھی وعدے عوام سے کئے گئے حکومت قائم کرتے ہی وہ سب وعدے پورے گئے ۔ تاہم این سی ، کانگریس اور پی ڈی پی کی تاریخ اس کے برعکس ہے ۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ وسائل کی عدم موجودگی کی وجہ سے ایسے وعدے پورا کرنا ممکن نہیں ہے ۔ ادھر کئی بڑی کمپنیاں مبینہ طور کشمیر میں اپنے یونٹ قائم کرنے کی خواہش مند ہیں ۔ اس وجہ سے نوجوانوں کو روزگار فراہم آنے کی امید کی جارہی ہے ۔ حالانکہ کئی حلقے الزام لگارہے ہیں کہ ان کمپنیوں کا مقصد یہاں کے عوام کی فلاح و بہبود نہیں بلکہ کشمیر میں پائے جانے والے قیمتی معدنیات پر قبضہ کرنا ہے ۔ تمام باتوں کو مدنظر رکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ رواں انتخابات سے جموں کشمیر کا سیاسی اور معاشی مستقبل طے ہونے جارہاہے ۔
