این سی نے اس بات کی تردید کی ہے کہ پارٹی کسی بھی سطح پر بی جے پی کے ساتھ پس پردہ مذاکرات کررہی ہے ۔ اس حوالے سے جاری کئے گئے بیان میں کہا گیا کہ پارٹی انڈیا بلاک کا حصہ ہے اور کسی دوسری جماعت کے ساتھ ہر گز تعلقات بڑھانے کی کوشش نہیں کررہی ہے ۔
این سی کا یہ بیان اس انکشاف کے بعد سامنے آیا جب کہا گیا کہ پارٹی کے سربراہ فاروق عبداللہ پہلگام میں خفیہ طور بی جے پی لیڈروں کے ساتھ دو بار مل چکے ہیں اور دونوں پارٹیوں کے درمیان حکومت سازی پر مذاکرات ہورہے ہیں ۔ اس خبر کے سامنے آتے ہی این سی نے اس کی تردید کی اور لوگوں سے اپیل کی کہ اس طرح کی افواہوں پر کان نہ دھریں ۔ پارٹی نے واضح کیا کہ کوئی بھی پس پردہ مذاکرات نہیں ہورہے ہیں اور ایسی افواہیں مبینہ طور این سی کو بدنام کرنے کے لئے پھیلائی جارہی ہیں ۔ این سی نے اس بات کی تردید نہیں کی کہ فاروق عبداللہ پہلگام میں موجود نہیں تھے ۔ بلکہ اقرار کیا کہ وہ پہلگام میں گالف کھیلنے کی غرض سے ٹھہرے تھے ۔ تاہم اس بات سے انکار کیا گیا کہ وہاں بی جے پی کے کسی نمائندے سے حکومت سازی کے معاملے پر کوئی بات چیت ہوئی ۔
یہ بڑی عجیب بات ہے کہ کشمیر میں موجود مین اسٹریم پارٹیوں کے رہنما بی جے پی کے ساتھ کسی طرح کا تعلق ظاہر کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔ ان کا بی جے پی کے حوالے سے رویہ انتہائی تیز اور گستاخانہ ہے ۔ ایسایقینی طور عوام کو اپنے ساتھ جڑے رکھنے اور ان کی حمایت حاصل کرنے کے لئے کیا جاتا ہے ۔ ان لیڈروں کو معلوم ہونا چاہئے کہ بی جے پی ایک حقیقت ہے ۔ بلکہ بی جے پی ملک کی حکمران جماعت ہونے کے علاوہ ایک عوامی طاقت ہے ۔ اسے عوام کی بڑے پیمانے پر حمایت حاصل ہے ۔ پچھلے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی رہنمائوں کو کچھ تکنیکی غلطیاں ہوئیں جس وجہ سے یہ الیکشن میں توقع کے مطابق کامیابی حاصل نہ کرسکے ۔ تاہم یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی ہے کہ بھاجپا ملک پر مزید کئی سال تک برسر اقتدار رہ سکے گی ۔ انڈیا بلاک کو اتنی مقبولیت حاصل نہیں ہورہی ہے کہ بی جے پی کو سیاسی نقشے سے غائب کردے ۔ ایسا ہو بھی جائے تو بھی اس کی واپسی کے امکانات کو مسترد نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ ایسی ملک گیر جماعتوں کو سیاسی منظر نامے سے غائب کرنا ممکن نہیں ہوتا ہے ۔ اس دوران یہ حقیقت بہر حال قائم ہے کہ فی الوقت بی جے پی ملک کی حکمران جماعت اور ایک مضبوط پارٹی ہے ۔ اگلے پانچ سال تک بھاجپا کو اقتدار سے ہٹانا کسی کے بس کا کام نظر نہیں آتا ہے ۔ اس کے باوجود یہاں کی مین اسٹریم پارٹیاں خود کو بی جے پی کی دشمن ظاہر کرنے میں لگی ہوئی ہیں ۔ این سی کے اس رویے کا ہر گز کوئی جواز نہیں ہے ۔ این سی رہنمائوں کا کہنا ہے کہ انڈیا بلاک کا حصہ ہونے کی وجہ سے ان کا بھاجپا کے ساتھ اتحاد ممکن نہیں ۔ بلکہ عمر عبداللہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسا کرکے وہ اپنے سیاسی کیریر کو دائو پر نہیں لگاسکتے ہیں ۔ حالانکہ ایسا سوچنا سیاسی بصیرت کمی ہے ۔ دیانت داری سے بات کی جائے تو جموں کشمیر میں انڈیا بلاک اور اس سے پہلے گپکار الائنس کو بکھیرنے میں این سی نے اہم رول نبھایا ۔ یہ کام کسی اور سے ہونا ممکن نہ تھا ۔ عمر عبداللہ نے یہ کام نہ کیا ہوتا تو کشمیر کے علاوہ جموں میں انڈیا بلاک کو بی جے پی پر برتری حاصل ہوجاتی ۔ بی جے پی کو انتخابات کے دوران جو کچھ بھی حمایت ملی اس کے لئے اسے عمر عبداللہ کا شکر گزار رہنا چاہئے ۔ گپکار الائنس کو بر وقت تہس نہس نہ کیا جاتا تو اسے اسمبلی میں یقینی طور دو تہائی اکثریت مل جاتی ۔ یہاںکا سیاسی نقشہ بالکل مختلف ہوتا اور بی جے پی کو عزت بچانا مشکل ہوتا ۔این سی کا اس دوران کشمیری عوام کے بجائے اپنے مفادات کا زیادہ خیال رہا ۔ اس نے بی جے پی کے بجائے مقامی حریف پی ڈی پی کو ختم کرنے کی فکر لاحق رہی ۔ ایسے میں این سی کا بی جے پی کے خلاف ہوا کھڑا کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا ۔ جب این سی لیڈروں نے الیکشن میں اس طرح کا رول نبھایا تو بی جے پی کے ساتھ اتحاد میں شرم کی کوئی بات نہیں ۔ عمر عبداللہ سمیت تمام مین اسٹریم جماعتوں کابی جے پی کے ساتھ مضبوط تعلق رہاہے ۔ کسی کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑا ۔ وقتی طور کچھ نقصان ضرور ہوا لیکن کوئی دائمی فرق نہیں پڑا ۔ اس طرح کا اتحاد کانگریس کے ساتھ کیا گیا تو عوام نے سخت ردعمل دکھایا ۔ این سی کے خلاف عوام میں جو کچھ بھی نفرت پائی جاتی ہے اس کا سبب ماضی میں کانگریس کے ساتھ اس کا اتحاد ہے ۔ بخشی ، صادق اور میر قاسم وغیرہ جو کبھی یہاں اقتدار کے مضبوط ستون رہے ہیں کانگریس دوستی کی وجہ سے ملیا میٹ ہوگئے ۔ مفتی سعید اور غلام نبی آزاد اسی وجہ سے کانگریس سے الگ ہوئے کہ اس ٹیگ کے ساتھ مقامی عوامی حلقوں میں کوئی وقعت حاصل کرنا مشکل ہے ۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو کانگریس عوام میں بی جے پی سے زیادہ ناقابل قبول ہے ۔ بی جے پی کے ساتھ جو دوری دکھائی جارہی ہے وہ اس کی حکومت کے ہاتھوں دفعہ 370 ہٹانے کی وجہ سے ہے ۔ ورنہ کشمیر میں بھاجپا تو کانگریس سے زیادہ قابل بھروسہ جماعت رہی ہے ۔ حیران کن بات یہ ہے کہ علاحدگی پسند حلقے بی جے پی کا اس طرح سے حوالہ نہیں دیتے جس طرح سے مین اسٹریم والے اس کا تذکرہ کرتے ہیں ۔ اول الذکر تو اس کا لوہا مانتے ہیں ۔ لیکن مین اسٹریم لیڈر ایسا کرنے سے گریز کرتے ہیں ۔ پس پردہ کیا کچھ ہورہاہے الگ بات ہے ۔ لیکن اعلانیہ معاملہ مخدوش ہے ۔ اس کے باوجود حالیہ اسمبلی انتخابات کے تناظر میں دیکھا جائے تو کہا جاتا ہے کہ جموں کے بیشتر علاقوں میں بی جے پی کو کافی عوامی حمایت حاصل رہی ہے ۔ ڈوڈہ اور کشتواڑ میں بھی کہا جاتا ہے کہ ووٹروں نے کانگریس اور این سی کے بجائے بی جے پی پر اعتماد کا اظہار کیا ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ غلام نبی آزاد کو بھی لوگوں نے گھاس نہیں ڈالی ۔ جب عوامی سطح پر بی جے پی کو پسند کیا جاتا ہے ۔ چاہئے ی پسندیدگی کسی خاص علاقے تک ہی کیوں نہ ہو اسے شجر ممنوع بنانا صحیح سوچ نہیں ہے ۔ بیک چینل مذاکرات کے بجائے کھل کر بات کی جائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے ۔
