وزیراعلیٰ بدھ کو جموں کشمیر یوٹی کے وزیراعلیٰ کے طور حلف لے رہے ہیں ۔ اس سے پہلے صدر جمہوریہ کی طرف سے یوٹی پر نافذ طویل صدارتی نظام ختم ہونے کا اعلان کیا گیا اور اس کے لئے باضاطہ آدر اجرا کیا گیا ۔ صدارتی نظام کے خاتمے پر تمام لوگوں نے اطمینان کا سانس لیا ۔ اس طرح سے نئی سرکار بنانے کی راہ ہموار کی گئی ۔ کشمیر کے لئے نئی حکومت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پچھلے ایک ہفتے سے لوگ بڑی بے تابی سے سرکار بننے کا انتظار کررہے ہیں ۔ تمام انتظامی حلقے نئی سرکار کی تشکیل میں لگے ہوئے ہیں ۔ یہ سرکار ایک اہم مرحلے پر بنائی جارہی ہے ۔ مرکزی سرکار نے اسمبلی کی تشکیل کے حوالے سے ہوئے انتخابات اور اس میں عوام کی شرکت کو جمہوریت کی کامیابی قرار دیا ۔ اس سے اندازہ لگایا جارہا ہے کہ مودی کی قیادت میں کام کررہی مرکزی حکومت کشمیر میں بننے والی نئی سرکار کے ساتھ تعاون کرے گی ۔ جس کے بعد مرکز کے ساتھ تعلقات مستحکم بنانے میں مدد ملے گی ۔ حالیہ انتخابات اور ان کے نتیجے میں بننے والی سرکار کا اہم پہلو یہ ہے کہ مقامی ماحول بہت ہی ساز گار ہے ۔ عوام کو سرکار کے خلاف اکسانے اور بغاوت پر بھڑکانے کے لئے کوئی گروہ موجود نہیں ہیں ۔ یہ نہ صرف تیس سالوں کے دوران ہوئے سب سے پر امن اور صاف و شفاف انتخابات بتائے جاتے ہیں بلکہ دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد پہلے انتخابات ہونے کے لحاظ سے بڑے اہم انتخابات ہیں ۔ انتخابات میں این سی کو بھاری منڈیت حاصل ہوا ۔ منڈیٹ بظاہر دفعہ 370 کی واپسی کے لئے فراہم کیا گیا ۔ تاہم کئی حلقے اس حوالے سے تحفظات کا اظہار کررہے ہیں ۔ عمر عبداللہ نے سرکار بنانے کے اپنے پہلے ہی قدم پر اتنے بڑے مسئلے کو نظر انداز کرنے کا اشارہ دیا اور واضح کیا کہ دوسرے مسائل پر توجہ دی جائے گی ۔ یہ کوئی عجیب بات نہیں کہ عمر عبداللہ نے اس طرح کے موقف کا اظہار کیا ۔ بلکہ کوئی بھی نئی سرکار سنجیدگی سے کام کرنے کی خواہش مند ہو تو متنازع مسائل کے بجائے عوام کے بنیادی مسائل پر کام کرنے کی کوشش کرے گی ۔ این سی سرکار کے سامنے حکومت بنانے کے بعد کیا ایجنڈا ہوگا اور کانگریس کے ساتھ کیا مشترکہ پروگرام بنایا جائے گا ۔ ابھی تک واضح نہیں ہے ۔ تاہم عوام دفعہ 370 کے علاوہ بہت سے فوری مسائل حل کرنے کی امید کرتی ہے ۔
این سی کی نئی سرکار کے لئے سب سے پہلا مسئلہ یہاں کے نوجوانوں کو مطمئن کرنا ہوگا ۔ این سی قیادت پچھلے دس سالوں سے کہہ رہی ہے کہ ملی ٹنسی کو کسی حد تک قابو میں کرنے کے باوجود لوگوں کو امن و سکون فراہم کرنے میں ناکام رہی ۔ اب یہ عمر سرکار کا کام ہے کہ صحیح معنوں میں امن قائم کرکے لوگوں کو جبری دبائو سے نجات دلائے ۔ پچھلے طویل عرصے سے اس علاقے کو پولیس اسٹیٹ بنادیا گیا ہے ۔ جہاں حالات مکمل طور پر امن ہیں اور ایک بھی ملی ٹنسی کا واقعہ کئی سالوں سے پیش نہیں آیا وہاں بھی بھاری تعداد میں سیکورٹی فورسز تعینات ہیں ۔ اس وجہ سے لوگوں کے گھومنے پھرنے پر اب بھی قدغن لگی ہوئی ہے ۔ اس ماحول کو بدل کر لوگوں کو مکمل آزادی فراہم کرنا ہوگی ۔ نوجوانوں کو حکومت کے قریب لاکر انہیں اپنانے کی کوشش کرنا ہوگی ۔ نوجوانوں کے اندر جو مایوسی پائی جاتی ہے اس کو دور کرنا ہوگا ۔ نوجوان روزگار کے حوالے سے سخت پریشانی کا شکار ہیں ۔ اس وجہ سے بہت سے نوجوان خود کشی کرچکے ہیں اور ان کی بڑی تعداد ذہنی تنائو کی شکار ہے ۔ نوجوانوں کو اس صورتحال سے نکالنا بہت ضروری ہے ۔ این سی اپنے انتخابی منشور میں ایک لاکھ نوکریاں فراہم کرنے کا وعدہ کرچکی ہے ۔ یہ محض ایک الیکشن نعرہ نہیں ہونا چاہئے ۔ بلکہ اس نعرے کو عملانے کے لئے کوئی لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا ۔ ایک لاکھ نوکریاں فراہم کرنا کوئی مشکل کام نہیں ۔ اس کے لئے لوگوں کے ساتھ ہمدردی ہونا ضروری ہے ۔ حکومت واقعی اپنے عوام کے ساتھ ہمدردی رکھتی ہوتو اس طرح کے اقدامات مشکل نہیں ۔ این سی کے بجائے جو بھی حکومتیں ماضی میں بنیں ان کے ہاتھوں بڑے بڑے کارنامے انجام دئے گئے ۔ ایسی حکومتوں نے یقینی طور جمہوریت کو کمزور کرنے میں تعاون کیا ۔ تاہم لوگوں کو بنیادی ضروریات فراہم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی ۔ اس حوالے سے این سی بدنام رہی ہے کہ اس جماعت کی سرپرستی میں حکومت ووٹ لے کر عوام کو بول جاتی ہے ۔ اب این سی سرکار کو عوام کے اندر اپنی شبیہ بہتر بنانے کی ضرورت ہے ۔ یہ جب ہی ممکن ہے کہ لوگوں کے ساتھ الیکشن کے دوران کئے گئے وعدے پورے کئے جائیں ۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ لوگ ٹیکس نہیں دیتے اور ٹیکس چوری کی وجہ سے حکومت منصوبے بنانے سے قاصر ہے ۔ لیکن پچھلے دس بیس سالوں سے یہاں جو نظام بنایا گیا اس میں لوگوں نے حسب استطاعت ٹیکس کی ادائیگی کی ۔ بلکہ ٹیکس دینے کے تمام پرانے ریکارڈ توڑ کر نیا ریکارڈ بنایا گیا ۔ عوام کے تعاون اور مودی سرکار کی اعانت سے عوامی مسائل آسانی سے حل کئے جاسکتے ہیں ۔ عوام دفعہ 370 کی واپسی کا انتظار کرسکتے ہیں ۔ لیکن انتخابی منشور میں کئے گئے وعدوں کو نظر انداز کرنے پر آمادہ نہیں ہیں ۔
