عوامی سرکار کو بنے ہوئے ابھی کچھ ہی دن گزرے ہیں کہ محکمہ بجلی کی طرف سے عوام مخالف اقدامات کا آغاز کیا گیا ۔ یہ انتہائی دیدہ دلیری ہے کہ عوامی سرکار ابھی کام کاج سنبھالنے میں مصروف ہے کہ بے جا بجلی کٹوتی شروع کی گئی ۔کئی حلقوں کا کہنا ہے کہ ایسا سرکار کو بدنام کرنے اور لوگوں کی نظروں میں اس کی وقعت کم کرنے کے لئے کیا جارہاہے ۔ ایسے مرحلے پر جبکہ سردیوں کا آغاز ہونے والا ہے اور لوگوں کو بجلی کی سخت ضرورت ہے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے عجیب شیڈول سامنے لائے گئے ۔ حیرانی اس بات پر ہے کہ سرکار سے تعاون کرنے اور لوگوں کی نظروں میں اس کی اہمیت اجاگر کرنے کے بجائے اس کو کمزور دکھانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ بجلی سپلائی میں اس طرح سے جان بوجھ کر خلل ڈالنے سے اسی طرح کا تاثر دیا گیا۔ اس طرح کی جرات کرنے سے عوامی حلقوں میں سرکار کے حوالے سے کوئی اچھا مسیج نہیں گیا ۔ بلکہ لوگوں کو اس ذریعے سے بتایا گیا کہ بجلی کے معاملے میں نئی سرکار سے کوئی بہتر توقعات نہ رکھیں ۔ نئی سرکار کو اس طرف فوری توجہ دے کر کسی بھی محکمے کے کارکنوں کو من مانی کی اجازت نہیں دینی چاہئے ۔ یاد رہے کہ موجودہ سرکار خاص کر وزیراعلیٰ نے بجلی کے حوالے سے لوگوں سے وعدہ کیا ہے کہ ہر کنبے کو دو سو یونٹ بجلی مفت فراہم کی جائے گی ۔ کہا جاتا ہے کہ محکمہ بجلی کے اعلیٰ حکام ان کے اس وعدے پر عمل کرنے کو تیار نہیں اور حکومت کو اس سے باز رکھنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ اس معاملے میں سرکار اپنے منشور پر عمل کرنے کے بجائے اس کے برعکس مشورے قبول کرے تو یہ عوام کے ساتھ مزاق ہوگا ۔ امید کی جارہی ہے کہ حکومت خود غرض عناصر کے بہکاوے میں نہ آکر عوام کے ساتھ اچھا سلوک کرے گی ۔
نئی حکومت وجود میں آتے ہی پہلا اعلان یہ کیا گیا کہ بجلی کی سپلائی لائنوں کی مرمت کی غرض سے سرینگر کے کئی علاقوں میں بجلی سپلائی متاثر رہے گی ۔اعلان اس طرح سے کیا گیا جیسے زندگی اور موت کا معاملہ ہو کہ اس کام کو کچھ دنوں کے لئے موخر نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ لوگ اس اعلان سے سکتے میں آگئے کہ ایسی کیا آفت پڑی ہے کہ سرکار بنانے سے زیادہ اہم بجلی تاروں کی مرمت ہے ۔ سرینگر جہاں سے موجودہ حکومت کو سب سے زیادہ سپورٹ ملا وہاں بیشتر علاقوں میں صبح سے لے کر شام تک بجلی بند رہنے کا اعلان کیا گیا ۔ اس دوران معلوم ہوا ہے کہ جنوبی کشمیر کے بہت سے علاقوں میں بھی بجلی بند رکھنے کا شیڈول سامنے لایا گیا ہے ۔ گاندربل ، کولگام اور دوسرے آس پاس کے علاقوں میں بھی بجلی سپلائی میں خلل کی خبریں گشت کرنے لگیں ۔ پانپور اور پلوامہ کے بہت سے علاقوں میں بجلی بند رہنے کے احکامات دئے گئے ۔ بجلی سپلائی میں اس طرح سے اچانک خلل نے صارفین کو بڑے پیمانے پر مشتعل کیا اور سوشل میڈیا پر اس حوالے سے ٹرالنگ شروع کی گئی ۔ بعد میں محکمے کی طرف سے کچھ تصحیح کی گئی اور پاور سپلائی میں بہتری لانے کا وعدہ کیا گیا ۔ تاہم اس حوالے سے عوامی حلقوں میں ناراضگی بڑھتی جارہی ہے ۔ لوگوں کا الزام ہے کہ محکمے کی طرف سے استحصال کا روایتی طریقہ اپناکر جان بوجھ کر صارفین کو پریشان کیا جارہاہے ۔ ان کا مطالبہ ہے کہ اس عمل کو ترک کیا جائے ۔ بجلی سپلائی ایک ایسا مسئلہ ہے جو کسی بھی حکومت کی بدنامی کا باعث بن جاتا ہے ۔ بجلی سپلائی میں خلل کشمیر میں کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ پچھلے ایک دو سالوں سے خاص طور سے صارفین پر محکمے کا سخت کریک ڈاون جاری ہے ۔ انتظامیہ نے سخت موقف اختیار کرتے ہوئے صارفین کو سپلائی کے حساب سے فیس ادا کرنے کی پالیسی اپنائی ۔ ایک طرف بجلی فیس میں بے تحاشہ اضافہ کیا گیا ساتھ ہی سپلائی میں کمی لائی گئی ۔ تکلیف دہ بات یہ ہوئی کہ بجلی فیس کی ریٹ مقرر کرتے وقت غریبی کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے والوں کو کسی طرح کی راحت دینے سے انکار کیا گیا ۔ آج حالت یہ ہے کہ یومیہ آمدنی پر اپنے کنبے کو پالنے والے اصحاب خانہ کو آمدنی کا بڑا حصہ بجلی فیس کی ادائیگی پر خرچ کرنا پڑتا ہے ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ بجلی کے استعمال کے حوالے سے کشمیریوں کو شہر و گام سخت بدنام کیا گیا ۔ عام صارفین کو اوورلوڈنگ اور بجلی چوری کا مرتکب قرار دے کر بجلی سے محروم رکھا جاتا ہے۔ اس کے باوجود یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ موجودہ این سی سرکار نے اپنے انتخابی منشور میں بجلی کے حوالے سے بڑے بڑے دعوے کئے ہیں ۔ الیکشن کا مرحلہ توخیریت سے گزر گیا اور نتائج بھی بہتر رہے ۔ لوگوں نے این سی کی طرف سے کئے گئے وعدوں پر بھروسہ کرتے ہوئے پارٹی امیدواروں کے حق میں ووٹ دئے ۔ این سے کے سربراہ فاروق عبداللہ کا کہنا ہے کہ دفعہ 370 کی بحالی سے زیادہ اہم لوگوں کے مسائل حل کرنا ہے ۔ اگر ان کی بات صحیح مان لی جائے تو سرکار کو چاہئے کہ کمر کس کر لوگوں کے مسائل حل کرنے پر توجہ دے ۔ پہلا مسئلہ بجلی کا مسئلہ ہے ۔ لوگ بجلی سپلائی کے حوالے سے سخت مایوسی کا شکار ہیں ۔ حکومت کو جلد از جلد اس مسئلے کو حل کرنے کی طرف توجہ دینی چاہئے ۔
