ممبر پارلیمنٹ اور شیعہ رہنما آغا روح اللہ نے وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کے نام ایک خط لکھا ہے ۔ خط میں وزیراعلیٰ کو کرسی سنبھالنے پر مبارک باد دی گئی ۔ اس کے علاوہ حکومت چلانے کے لئے کچھ مفت مشورے بھی دئے گئے ہیں ۔ خط میں مخصوص ذاتوں کے لئے سرکاری نوکریوں میں ریزرویشن کا مسئلہ اٹھایا گیا ہے ۔ اس حوالے سے آغا روح اللہ نے مشورہ دیا کہ اس پر دوبارہ غور کرکے از سرنو ترتیب دیا جائے ۔ روح اللہ کا کہنا ہے کہ اس طرح کی پالیسی قابلیت اور صلاحیتوں کا دم توڑنے کا باعث بن رہی ہے ۔ ان کا خیال ہے کہ جموں کشمیر میں اس طرح کی پالیسی کی اب ضرورت نہیں ہے ۔ اس کے بجائے قابلیت کو اہمیت ملنی چاہئے ۔ خط میں وزیراعلیٰ کو وہ تمام وعدے یاد دلائے گئے ہیں جو حالیہ الیکشن کے دوران لوگوں سے کئے گئے اور ان کا پاس ولحاظ کرنے پر زور دیا گیا ۔ خط کو سوشل میڈیا پر وائرل کیا گیا اور اب تک کئی ہزار لوگوں نے اس کو پڑھا ۔ خط کے ذیل میں جو comments سامنے آئے ان سے اندازہ ہورہاہے کہ بیشتر لوگوں نے خط کو پسند کیا اور روح اللہ کی بڑے پیمانے پر تعریف کی جارہی ہے ۔ خط میں وزیراعلیٰ کو دفعہ 370 کے حوالے سے کسی طرح کے سمجھوتے کو ناقابل قبول قرار دیا گیا ہے بلکہ اس پر لوگوں سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے کی تاکید کی گئی ہے ۔ ان باتوں سے قطع نظر جو عوامی اور غیر سیاسی مسئلہ خط میں اٹھایا گیا ہے وہ سرکاری نوکریوں میں کوٹا سسٹم کا مسئلہ ہے ۔ روح اللہ کا خیال ہے کہ اس سسٹم کو ترک کرکے ایسا نظام وضع کیا جانا چاہئے جو میرٹ پر قائم ہو ۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وجہ سے باصلاحیت افراد نوکریوں میں بھرتی ہوجائیں گے ۔ ایسا نہ کیا گیا تو میرٹ ہمیشہ کے لئے ختم ہوکر رہ جائے گا ۔ موجودہ این سی سرکار آغا روح اللہ کے مشوروں اور وزیراعلیٰ کے نام لکھے گئے خط میں اٹھائے گئے مسائل کو واقعی قابل توجہ سمجھتی ہے کہ نہیں ۔ اس حوالے سے کچھ کہنا قابل از وقت ہے ۔ تاہم کئی لوگ اس طرح سے اٹھائے جارہے سوالات کو ایک اہم سیاسی پیش رفت سمجھتے ہیں ۔
نیشنل کانفرنس میں پارٹی قیادت پر کسی طرح کے سوالات اٹھائے جانے کی کوئی روایت نہیں پائی جاتی ہے ۔ اب تک کسی بھی این سی کارکن یا لیڈر میں اس طرح کی جرات نہیں پائی گئی ۔ آغا روح اللہ پہلے اورواحد این سی کارکن ہیں جو اس طرح سے بات کرنے کی کھلے عام جرات کرتے ہیں ۔ انہوں نے اس سے پہلے بھی کئی بار پارٹی پالیسی کو غلط محسوس کرکے اس کے خلاف جانے کی جرات کی ۔ آج ایک بار پھر انہوں نے وزیراعلیٰ کے سامنے ایسے سوالات اٹھائے جن کا پاس و لحاظ کرنا ان کے بس کی بات نہیں ۔ یہ
صحیح ہے کہ آغا روح اللہ نے حالیہ انتخابات میں کلیدی رول ادا کیا ۔ عمر عبداللہ کو اسمبلی کی دو نشستوں پر کامیابی دلانے کے علاوہ ایک درجن کے آس پاس این سی امیدواروں کی جیت میں ان کا ہاتھ بتایا جاتا ہے ۔ کئی ایسی نشستیں جہاں این سی امیدواروں کو مخالفین سے ہارجانے کا سخت خطرہ تھا ۔ آغا روح اللہ وقت پر مدد نہ کرتے تو این سی کو اتنا بڑا منڈیٹ ملنا ممکن نہ تھا ۔ اس کے باوجود ان کے اٹھائے گئے سوالات کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ قبل از وقت ہونے کے علاوہ سخت قسم کے سوالات ہیں ۔ ریزرویشن پالیسی اور اس پر کئے گئے اعتراض کے حوالے سے آغا روح اللہ کو یاد دلائیں کہ یہ اصل میں مرکز سے وضع ہوکر آئی پالیسی ہے اور جموں کشمیر پر اس زمانے میں نافذ کی گئی جب دفعہ 370 بحال تھا ۔ اس کے باوجود اس کو یہاں درآمد کرکے نافذ کیا گیا ۔ منڈل کمیشن کی اس پالیسی کو اس زمانے میں وقت کی اہم ضرورت سمجھا جاتا تھااور پسماندہ طبقوں کو آگے بڑھانے میں اس پالیسی نے ایک اچھے ہتھیار کا کام کیا ۔حالانکہ جموں کشمیر میں اس کی ضرورت محسوس نہیں کی جارہی تھی ۔ یہاں پسماندہ طبقوں کے بجائے اس پالیسی سے کچھ مخصوص خاندانوں کو فائدہ ملا جنہوں نے اپنے آپ کو ایسے مخصوص طبقوں میں شامل کرایا جہاں ان کا ہونا یقینی طور ناجائز تھا ۔ آغا صاحب کو شاید یہ بھی یاد ہوگا کہ 2009 میں جب عمر عبداللہ کی قیادت میں این سی کانگریس کی مخلوط سرکار قائم تھی تو ریزرویشن پالیسی کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ۔ لیکن اس وقت کے نائب وزیراعلیٰ نے اس پر شدت پسندانہ رویہ اختیار کرکے اس پر سمجھوتہ کرنے سے انکار کیا ۔ یہ وہ زمانہ ہے جب آغا روح اللہ کابینہ میں بہ نفس نفیس موجود تھے ۔ انہیں معلوم ہوگا کہ نائب وزیراعلیٰ نے اس کو کشمیر بنام جموں مسئلہ بناکر اس نکتے تک پہنچادیا جہاں اتحاد ٹوٹنے اور حکومت گرنے کا خدشہ محسوس کیا گیا۔ بعد میں وزیراعلیٰ نے اپنے موقف کو ترک کرکے ایسی پالیسی کو تسلیم کیا جس سے جموں والوں کو کشمیر میں نوکریوں کا مزید کوٹا مل گیا ۔ اسی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ سرینگر میں LOC کا سرے سے کوئی وجود نہ ہونے کے باوجود یہاں نوکریوں میں ایسے طبقوں کے لئے کوٹا مخصوص ہے جو جموں سے آکر یہاں کی نوکریوں پر قبضہ جمائے ہوئے ہیں ۔ یاد رہے کہ ایک زمانے میں موجودہ وزیراعظم اور ان کی پارٹی بھی اس طرح کے کوٹا سسٹم کے بجائے میرٹ کی حمایت کرتی تھی ۔ لیکن اقتدار میں آنے کے بعد اس پالیسی کو ترک کیا گیا اور اپنا ووٹ بینک بنانے کے لئے اس کی حمایت کی گئی ۔ موجودہ مرحلے پر جبکہ سرکار پر جموں کی مضبوط اورمکمل گرفت ہے کوٹا سسٹم میں کوئی تبدیلی لانا ممکن نہیں ۔ عمر عبداللہ پہلے اس مسئلے پر کرسی چھوڑنے کو تیار ہوئے نہ اب اس طرح کی امید کی جاسکتی ہے ۔