جموں کشمیر کوئی اسلامی ریاست ہے نہ حکومت اسلامی ایجنڈا لے کر بنائی گئی ہے ۔ اس کا اپنا منشور ہے اور اسی تناظر میں اپنا کام کرنے جارہی ہے ۔ موجودہ سرکار نے اقتدار میں آنے سے پہلے لوگوں سے واضح کیا ہے کہ ہمارا آئندہ کا ایجنڈا کیا ہوگا ۔ اس میں بنیادی سہولیات اور تعمیر و ترقی کے کام شامل ہیں ۔ لوگ بھی چاہتے ہیں کہ حکومت اپنے ایجنڈا پر عمل کرکے آگے بڑھے ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ پوری قانون ساز اسمبلی پر ایک ہی دھن سوار ہے کہ سارا کاروبار صرف اور صرف دفعہ 370 کے ارد گرد گھومتا رہے ۔ یہ مسئلہ اس طرح ممبران پر حاوی ہے کہ ٹریجری بینچ کے علاوہ اپوزیشن اس سے باہر نکل آنے کو تیار نہیں ۔ یہاں تک کہ بی جے پی کے ممبران اس مسئلے کو اتنا طول دے رہے ہیں کہ پوری کاروائی اسی ایک نکتے کے نظر ہورہی ہے ۔ اس وجہ سے وہ تمام باتیں نظر انداز ہورہی ہیں جن کی عوام آس لگائے بیٹھے ہیں ۔ عوام نے نئی سرکار بنانے میں جو تعون دیا وہ اس سے پہلے کبھی نہیں دیا گیا ۔ اس بات کو بڑی اہمیت دی جارہی ہے کہ اسمبلی کے لئے انتخابات دس سال بعد ہوئے اس وجہ سے نئی اسمبلی ایک منفرد اسمبلی ہے ۔ سچ یہ ہے کہ پچھلے تیس سالوں کے بعد یہ اپنی نوعیت کی بڑی اہم اسمبلی ہے ۔ لوگوں نے اس دوران بہت دکھ جھیلے اور تکلیف اٹھائی ۔ انہیں اس بات کا بڑا شاک تھا کہ ان کے فیصلے ایسے لوگ کرتے ہیں جنہیں انہوں نے ووٹ نہیں دیا ۔ اس دوران انہیں یقینی طور کافی مراعات دی گئیں ۔ لیکن یہ ان کا حق سمجھ کر نہیں دیا گیا ۔ بلکہ بھیک کی طرح انہیں فراہم کیا گیا ۔ جو کچھ بھی دیا گیا ساتھ نسلوں پر منت رکھ کر دیا گیا ۔ جیسے عوام کو خریدنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ بہت کچھ ملنے کے باوجود بھی خوش نہیں تھے ۔ انہیں اطمینان نہیں تھا ۔ کہیں کوئی سکون نہیں تھا ۔ لوگ سخت بے چین تھے ۔ پریشان تھے ۔ خوف و ہراس ان کے چہروں سے عیاں تھا ۔ لوگ ذہنی تنائو کے شاکر تھے ۔ کھچائو اور کشیدگی ہر جگہ موجود تھے ۔ حالات بہتر ہونے کے باوجود یہ پرسکون نہیں تھے ۔ امن او امان ہونے کے باوجود کشیدگی کا ماحول محسوس ہوتا تھا ۔ حزن و ملال اور افسردگی بڑھتی جارہی تھی ۔ ڈپریشن کی وجہ سے لوگ مبینہ طور منشیات اور خود کشیوں کی طرف چلے گئے ۔ ذہنی مریضوں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہوتا گیا ۔ ایسے میں جب انتخابات کا اعلان کیا گیا تو لوگوں نے ٹوٹی پھوٹی سرکار بنانے کے باوجود این سی کو بڑا منڈیٹ دیا ۔ لوگ اب کی بار لولی لنگڑی سرکار کے بجائے مضبوط سرکار کے خواہش مند تھے ۔ کئی حلقوں کی کوششوں کے باوجود عوام بکھر نہیں گئے بلکہ یک جٹ ہوکر این سی کو ووٹ دیا تاکہ ایک مضبوط سرکار انہیں وہ سب کچھ دے سکے جس کی انہیں ضرورت ہے ۔ پچھلی دہائی کے دوران لوگوں کو دیوار کے پیچھے دھکیلا گیا ۔ عوام کے لئے یہ ایک برا دھچکہ تھا جس کا یہ فوری مداوا چاہتے ہیں ۔ اب اسمبلی کو کسی ایک مدعے کے اندر گھیرے رکھنا لوگوں کو قبول نہیں ۔ بلکہ لوگ چاہتے ہیں کہ ان کی بات سنی جائے ۔ انہیں کوئی اپنائیت کا احساس دے ۔ ان کے دکھ درد کی کہانی سنی جائے ۔ سڑکیں ، بجلی اور گیس کافی نہیں ۔ بلکہ لوگوں کو گلے لگانے کی ضرورت ہے ۔
اس بات سے انکار نہیں کہ عوام کے لئے دفعہ 370 کی واپسی عزت اور وقار کا ہی نہیں بلکہ موت و حیات کا معاملہ ہے ۔ انہیں بڑا دکھ ہے کہ ان کی زمین اور نوکریوں پر ان کا خالص حق ختم کیا گیا ۔ یہ ٹھیک تھا یہ غلط کہ کسی غیر پشتنی باشندے کو یہاں زمین خریدنے کا قانونی حق نہیں تھا ۔ لیکن لوگ اس قانون کی وساطت سے خود کو محفوظ سمجھتے تھے ۔ اس قانون کو ختم کیا گیا ۔ اس اقدام سے لوگوں کو ایسا لگا کہ ان کی زمین ہتھیائی جارہی ہے ۔ اس حوالے سے کچھ کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ تاہم اس ایک سوال کی بنیاد پر اسمبلی کو یرغمال بنانا صحیح نہیں ہے ۔ اس پر جو ریزولیشن پاس کیا گیا وہ ایک تاریخی قدم ضرور ہے ۔ لیکن اس سے کوئی انقلاب آنے والا نہیں ہے ۔ اس سے کوئی تبدیلی کی امید نہیں رکھی جاسکتی ۔ یہ بس وہی معمولی کاروائی ہے جو اٹانومی کے وقت عمل میں لائی گئی تھی ۔ اس کا انجام بھی وہی ہونے والا ہے ۔ یہ سب جانتے ہیں ۔ عوام بھی اور اسمبلی کے تمام ارکان بھی ۔ جب یہ حقیقت ہے تو اس کے بعد کیا کرنا ہے اس پر غور ہونا چاہئے ۔ لوگوں کو ایسے بہت سے مسائل ہیں جن کا وہ حل چاہتے ہیں ۔ ان سے صرف مرکزی سرکار نے سب کچھ نہیں چھینا ۔ بلکہ اس آڑ میں ان پر مقامی انتظامی اہلکاروں نے بھی ظلم و ستم کیا ۔ اس دوران سرکاری محکموں میں جتنی بھی تقرریاں کی گئیں سب پر کورپشن اور یرا پھیری کا ٹھپہ لگایا گیا ۔ لوگوں نے شور مچایا ۔ کسی نے نہیں سنا ۔ کیا یہ عمل جاری رہے گا اس حوالے سے لوگ کچھ سننے کے خواہش مند ہیں ۔ سڑکوں کی کشادگی اور پھیلائو کے نام پر ان کی وراثتی زمینیں ہڑپ کی گئیں ۔ تعمیرات مسمار کی گئیں ۔ تھانوں میں مقدمے بنائے گئے ۔ ایک یا دوسرے بہانے بہت کچھ لوگوں سے کیا گیا ۔ لوگ چاہتے ہیں کہ انہیں اس کا معاوضہ نہیں کم از کم ان زخموں پر مرہم رکھا جائے ۔ انہیں یقین دلایا جائے کہ وہ یہاں کے معزز شہری ہیں ۔ ان کی عزت اور احترام کا خیال رکھا جائے ۔ ان کے ساتھ انصاف ہوگا ۔ زور زبردستی نہیں ہوگی ۔ چھینا جھپٹی نہیں ہوگی ۔ کسی کا حق نہیں مارا جائے گا ۔ کسی کو بے حق ستایا نہیں جائے گا ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ لوگوں کے ذاتی مسائل سنے جائیں ۔ ان کی خبرگیری کی جائے ۔ یہ حکومت کا فرض ہے ۔ اس حوالے سے فرض شناسی کی ضرورت ہے ۔ حکومت فرض شناس ہوگی تو کاروبار حکومت بہتر انداز میں انجام پائے گا ۔
