پچھلے دوتین دنوں کے دوران مبینہ طور ٹریفک حادثات میں دو لوگ مارے گئے اور پچاس کے لگ بھگ زخمی بتائے جاتے ہیں ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ٹریفک کنٹرول کرنا کافی مشکل بن گیا ہے ۔ٹریفک کو کنٹرول کرنے والے اہلکار اصل کام انجام دینے کے بجائے ادھر ادھر کے کاموں میں لگادئے گئے ہیں ۔ محکمے کی ساری توجہ سرینگر کی سڑکوں پر مرکوز ہے ۔ سرینگر سے باہر محکمے کا مشکل سے کہیں وجود نظر آتا ہے ۔ سرینگر میں بھی کچھ مخصوص جگہوں پر ٹریفک اہلکار ڈیوٹی دینے پر آمادہ ہوتے ہیں ۔ سڑکوں پر گاڑیوں کو کھڑا نہیں ہونے دیا جاتا ۔ اس کے لئے مخصوص ٹیم مقرر ہوتی ہے جو غلط اور عوامی مصروفیت والی جگہوں پر کھڑا کی گئی گاڑیوں کو اٹھاکر لے جاتے ہیں ۔ ان گاڑی مالکان سے مبینہ طور جرمانہ وصول کیا جاتا ہے ۔ پھر کہیں انہیں چھور دیا جاتا ہے ۔ اس کے باوجود عام شاہراہوں اور عوامی مصروفیت کی جگہوں پر گاڑیاں کھڑا نظر آتی ہیں ۔ اس کا صاف مطلب ہے ک لوگوں کو یا تو غلط جگہ گاڑی کھڑا کرنے کی سزا معلوم نہیں یا اس کا کوئی خوف نہیں ۔ اسی طرح کئی مقامات پر ٹریفک کی ہڑ بونگ رہتی ہے ۔ ایسی جگہوں پر ٹریفک جام کے علاوہ ایکسیڈنٹ کا بھی خطرہ رہتا ہے ۔ پچھلے کچھ سالوں سے کہا جاتا ہے کہ کشمیر میں اتنے نوجوان ملی ٹنسی سے نہیں مارے جاتے ۔ کل کی بات ہے کہ دو نوجوان دیکھتے ہی دیکھتے مارے گئے ۔ اس کے علاو ہ ایک دن کے اندر پچیس لوگوں کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے ۔ مارے گئے نوجوانوں میں ایک نوجوان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا باپ بیس روز پہلے ہی فوت ہوچکا ہے ۔ اس کے باوجود اس نے لاکھ ڈیڑھ لاکھ کی موٹر سائیکل گھر سے نکال کر سڑک پر کرتب دکھانے کی کوشش کی ۔ فلمی اسٹائل میں موٹر سائیکل سے چھلانگ لگانے کی کوشش کے دوران مارا گیا ۔ مارا گیا نوجوان اپنی طبعی عمر مکمل کرکے دنیا سے چلا گیا ۔ مگر اپنی بیوہ ماں اور بہن بھائیوں کو ایسے زخم دے کر گیا جن کو ساری عمر سہلنا ان کے لئے مشکل ہوگیا ۔ دیکھا گیا ہے کہ ملک میں پیش آنے والے حادثات میں سے نوے فیصد حادثے انہی موٹرسائیکلوں کی وجہ سے پیش آتے ہیں ۔ ایک تو ان پر سوارہونے والے منچلے نوجوان ہوتے ہیں جو سنجیدگی سے ایسی گاڑی چلانے کے لئے تیار نہیں ۔ دوسرا بغیر ہیلمٹ کے گاڑی لے کر گھر سے نکلتے ہیں ۔ گھر والے انہیں کچھ کہتے ہیں نہ راستے میں کوئی پوچھنے والا ہوتا ہے ۔
حادثات کے حوالے سے کشمیر میں عجیب ذہنیت اور سوچ پائی جاتی ہے ۔ اس کو قدرت کا لکھا کہہ کر نظر انداز کیا جاتا ہے ۔ ٹریفک حادثات میں مارے جانے والوں کے پسماندگان کو دلاسہ دیا جاتا ہے ۔ اس کے بعد حادثات کو روکنے کے تدابیر نہیں کئے جاتے ہیں ۔ حکومت نے سڑکیں کشادہ کیں ۔ اب توقع کی جارہی تھی کہ ایسے حادثات میں کمی آئے گی ۔ لیکن ایسا نہیں ہورہاہے ۔ بلکہ مرنے اور زخمی ہونے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہاہے ۔ یہ بڑی تشویشناک بات ہے ۔ المیہ تو یہ ہے کہ قصورواروں کو پکڑا جاتا ہے نہ حفاظت کے اقدامات کئے جارہے ہیں ۔ یہاں یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی ہے کہ لوگ ٹریفک قوانین پر عمل نہیں کرتے ہیں ۔ یہاں کے ٹریفک نظام ابھی اتنی ترقی نہیں کرسکا کہ لوگ قوانین پر عمل کرنے پر مجبور ہوجائیں ۔ اس کی وجہ یہی بتائی جاتی ہے کہ نظر رکھنے والے موجود نہیں ۔ رشوت کے حوالے سے ٹریفک کا محکمہ سب سے بدنام ہے ۔ اس کے ساتھ پولیس کو بھی نتھی کیا جاتا ہے ۔ بہت سے شعبوں کے اندر پچھلے دو چار سالوں سے کافی سدھار دیکھنے کو مل رہاہے ۔ لیکن جو محکمے اب تک پرانی روش ر قائم ہیں ان میں ٹریفک کا محکمہ بھی شامل ہے ۔ اس دوران یہاں گاڑیوں خاص کر نجی گاڑیوں کی تعداد میں بے حد و حساب اضافہ ہوگیا ۔ بیشتر ڈرائیور بغیر لائسنز کے گاڑی چلاتے ہیں ۔ جن کے پاس لائسنس بھی ہے ان میں بھی بہت سے صحیح ہنر نہیں جانتے ۔ اس کے باجود گاڑی لے کر سڑکوں پر نکلتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ٹریفک حادثات رکتے ہیں نہ مرنے والوں کی تعداد کم ہوپاتی ہے ۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس طرف توجہ دی جائے ۔ والدین کو چاہئے کہ خود کو کسی آزمائش میں ڈالنے سے پہلے سو بار سوچیں آیا انہیں اپنے بچوں کو گاڑی لاکر دینی چاہئے کہ نہیں ۔ گاڑی بغیر مجبوری کے خرید کر نہ دیں ۔ بلکہ بچے کو اپنی کمائی سے پہلے گاڑی نہ دیں ۔ گاڑی دینا ضروری ہو تو ان پر نظر رکھیں ۔ انہیں احتیاطی اقدامات اور ٹریفک قوانین سے با خبرکریں ۔ انہیں بے قابو نہ ہونے دیں ۔ یہی وقت کا تقاضاہے ۔