انتظامیہ نے جب سے ٹولپ گارڈن کو عوام کے لئے کھول دیا وہاں لوگوں کا کافی رش نظر آرہاہے ۔ پہلے دن بتایا جاتا ہے کہ 20 ہزار سے 30 ہزار تک لوگوں نے وہاں کھلے پھولوں کا نظارہ کیا ۔یہ سلسلہ تاحال جاری ہے ۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ نہ صرف گاڑیاں پارک کرنے کے لئے جگہ کم پڑرہی ہے ۔ بلکہ باغ کے اندر بھی لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر نظر آرہاہے ۔ سیر کے لئے آئے لوگوں میں بڑی تعداد میں بیرون کشمیر سے آئے سیاحوں کو بھی دیکھا گیا ۔ سرینگر میں قائم ٹولپ گارڈن ایشیا کا سب سے بڑا ایسا باغ ہے ۔ پھر اس کا محل وقوع انتہائی دیدہ زیب ہے ۔ زبرون کی پہاڑیوں اور ڈل کے کنارے بنائے گئے اس باغ نے پہلے ہی دن سے لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لیا ۔ کووڈ19 کی وبائی صورتحال آڑے نہ آتی تو اس دوران بڑے پیمانے پر سیاح یہاں آئے ہوتے ۔ تاہم صورتحال میں تھوڑی بہت بہتری آتے ہی لوگ کشمیر آنا شروع ہوئے ۔ ان کی آمدکی بڑی وجہ ٹولپ گارڈن کی خوبصورتی بتائی جاتی ہے ۔ یہ سیاح یہاں آکر صرف ٹولپ گارڈن تک محدود نہیں رہتے ۔ بلکہ دوسرے سیاحتی مقامات تک بھی جاتے ہیں ۔ اس کا نتیجہ ہے کہ مغل باغات کے علاوہ پہلگام ، گلمرگ ، سونہ مرگ اور دوسری جگہوں پر لوگ کافی تعداد میں نظر آتے ہیں ۔ اس درمیان دوسری ریاستوں سے آنے والے سیاحوں کو یہاں لاجنگ اور بورڈنگ کی ضرورت پڑتی ہے ۔ یہ سیاح ہوٹلوں خاص کر ہاوس بوٹوں میں ٹھہرنا پسند کرتے ہیں ۔ یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ ان سیاحوں کی آمد سے سیاحتی شعبے کو کافی تقویت مل رہی ہے ۔
سیاحوں کی کشمیر آمد کا ہمیشہ خیر مقدم کیا جاتا رہاہے ۔ دس بیس سالوں کے وقفے کے بعد یہ کاروبار پھر سے شروع ہورہاہے ۔ ٹورازم انڈسٹری سے جڑے لوگ اتنا عرصہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے ۔ جن لوگوں نے نوے کی دہائی کے آغاز میں اس حوالے سے سرمایہ کاری کی تھی وہ سخت خسارے سے دوچار رہے ۔ یہاں تک کہ حکومت کو کئی بار انہیں امداد مہیا کرنا پڑی ۔ اس کے باوجود ان کی دل جوئی نہ کی جاسکی ۔ یہ لوگ کئی دہائیوں سے سیاحتی سرگرمیوں کے ساتھ منسلک رہے ہیں ۔ ایسی سرگرمیاں اچانک ٹھپ پڑ گئیں تو یہ لوگ سخت مایوس ہوگئے ۔ کام کاج چھن جانے کی وجہ سے یہ لوگ ذہنی تنائو کا شکار ہوگئے ۔ اب شیاحتی سرگرمیوں میں ابھار آنے کے بعد ان کے اندر نئی امید پیدا ہوگئی ۔ اگرچہ کئی معاملات کے حوالے سے شکایات بھی سامنے آرہی ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ کئی لوگ ان سیاحوں کا استحصال کررہے ہیں ۔ آٹو چلانے والوں سے متعلق کہا جاتا ہے کہ بے جا کرایہ وصول کرتے ہیں ۔ اسی طرح ان کی رہائش کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ درمیانہ داروں کا ایسا طبقہ ابھر کر سامنے آیا ہے جو دلالی کرکے ان سے کافی رقم ہڑپ کرلیتے ہیں ۔ انتظامیہ کو چاہئے کہ ایسی شکایات کا جائزہ لے کر اس کا ازالہ کریں ۔ موجودہ مرحلے پر اس طرف توجہ نہ دی گئی تو آگے جاکر یہ ایسا ناسور بن سکتا ہے جس کا علاج کرنا ممکن نہ ہوگا ۔ انتظامیہ کو چاہئے کہ باہر سے آنے والے سیاحوں کے انٹری پوئنٹس پر ان کو نرخ نامے مہیا کئے جائیں تاکہ بر وقت ہوشیار ہوکر یہ کرایہ مقررہ ریٹ کے مطابق ہی ادا کریں ۔ ملک کے دوسرے سیاحتی مقامات پر انتظامیہ بڑی متحرک رہتی ہے اور سیاحوں کو ضروری ہدایات دے کر استحصالی عناصر کے ہتھے چڑھ جانے سے بچالیتی ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ کہیں اس پر سو فیصد کنٹرول حاصل کیا گیا ہے ۔ گوا جیسی سیاحتی سٹیٹ کے بارے میں یہ عجیب بات بتائی جاتی ہے کہ ہر چیز کے لئے پانچ فیصد کی اضافی وصول کی جاتی ہے ۔ یہاں تک کہ منرل واٹر کی ایک بوتل پر پانچ روپے اضافی لئے جاتے ہیں ۔ ایسا چوری چھپے نہیں بلکہ اعلانیہ کیا جاتا ہے ۔ مقامی لوگوں سے جو قیمت وصول کی جاتی ہے سیاحوں سے اس سے بڑھ کر قیمت لی جاتی ہے ۔ ممبئی میں سیاحوں کو غلط اطلاعات فراہم کرکے انہیں ٹھگ لیا جاتا ہے ۔ وہاں جو بروکر پائے جاتے ہیں ان کا خوف اس قدر پایا جاتا ہے کہ ان سے بحث مباحثہ کرنا ممنوع ہے ۔ پولیس سے شکایت کرنے کی کوئی جرات نہیں کرسکتا ہے ۔ اس کے برعکس کشمیر میں سیاحوں کے لئے مناسب ماحول پایا جاتا ہے ۔ اکا دکا شکایات ضرور ہیں تاہم لوگ بہت ہی فراخ دل ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے اقدامات کئے جائیں جو سیاحوں کی آمد میں اضافے کا باعث بن سکیں ۔ ٹورازم انڈسٹری کو بڑھاوا دینا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔