نامعلوم جنگجووں نے پلوامہ میں گولی چلاکر دو غیرمقامی شہریوں کو زخمی کیا ۔ یہ واقعہ اتوار کو شام سات بجے پیش آیا جب پٹھانکوٹ کے دو شہریوں پر لتر علاقے میں گولیاں چلائی گئیں ۔ دونوں شہری کہا جاتا ہے کہ پولٹری گاڑی کے ساتھ کام کررہے ہیں ۔ ان میں ایک گاڑی کا ڈرائیور اور دوسرا اس کا کلینر ہے ۔ یہ ایک پولٹری گاڑی کو لے کر یہاں آئے تھے ۔ اس دوران ان پر حملہ کرکے انہیں شدید زخمی کیا گیا ۔ دونوں زخمیوں کو مقامی سپتال لے جایا گیا جہاں سے ایک شخص کو سرینگر صدر ہسپتال مزید علاج کے لئے بھیجا گیا ۔ واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے پولیس آفیسر نے کہا کہ زخمیوں میں سے ایک شخص کے سینے پر گولی لگی تھی جسے سرینگر علاج معالجے کی غرض سے بھیجا گیا ۔ اس واقعے سے پورے علاقے میں سراسیمگی پھیل گئی ہے ۔
پلوامہ حملہ اس سلسلے کی ایک کڑی ہے جس میں جنگجووں نے پچھلے کئی مہینوں کے دوران وقفے وقفے سے عام شہریوں کو نشانہ بنا یا ۔یہ سلسلہ سرینگر سے شروع ہوکر جنوبی کشمیر تک پہنچ گیا ۔ ایسے حملوں میں عام شہریوں کے علاوہ کئی عوامی نمائندوں اور چھٹی پر گھر آئے سیکورٹی اہلکاروں کو ہلاک کیا گیا ۔ اس وجہ سے کئی حلقوں میں سخت تشویش پائی جاتی ہے ۔ ایسے ایک تازہ حملے میں دو بھائیوں کو اس وقت ہلاک کیا گیا جب ایک ایس پی اور کے ساتھا س کے بھائی پر گولیوں کی بوچھاڑ کی گئی ۔اس درد ناک واقعے کے بعد اب پلوامہ میں گاڑی چلانے والے دو غریب اور غیر مقامی شہریوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا ۔ اس واقعے پر اس وجہ سے سخت افسوس کا اظہار کیا جاتا ہے کہ پچھلے کئی روز سے کشمیر میں بڑے پیمانے پر ہندوستان کے مختلف علاقوں سے سیاح آنا شروع ہوئے تھے ۔ سیاحوں کی اس طرح کی آمد کو خوش آئند بات خیال کیا جاتا تھا ۔ کئی لوگ امید کررہے تھے کہ اس سال سیاحتی سیزن کافی کامیاب رہے گا اور سیاحت سے جڑے لوگوں کو منافع مل پائے گا ۔ لیکن ایسے مرحلے پر ملی ٹنٹوں کی طرف سے ایک بار پھر غیر مقامی شہریوں کو نشانہ بنانے کا ایک بڑا واقع پیش آیا ۔ ادھر انتظامیہ تیاری کررہی ہے کہ دو سال کے وقفے کے بعد امرناتھ یاترا کا آغاز ہونے والا ہے ۔ کووڈ کی وجہ سے پچھلے دو سال کے دوران امرناتھ یاترا کا بڑے پیمانے پر اہتمام نہیں کیا جاسکا ۔ اس دوران اگرچہ کئی سو یاتری کشمیر آئے ۔ لیکن منظم یاترا کا اہتمام نہیں کیا جاسکا ۔ اب کئی ہفتوں سے بڑی تعداد میں سیاحوں کے ساتھ یاتریوں کی آمد شروع ہورہے ہے ۔ پچھلے کئی ہفتوں کے دوران پہلگام میں سیاحوں کا رش دیکھا گیا ۔ یہ سیاح پہلگام میں مبینہ طور چندن واڑی تک بھی چکر لگاکر آئے ۔ چندن واڑی میں ان سیاحوں کے لئے مقامی لوگوں نے کھانے پینے کے علاوہ لطف اٹھانا کا سامان بھی مہیا کررکھا تھا ۔ اس وجہ سے لوگ بڑی تعداد میں چندن واڑی اور دوسرے مقامات کا سیر کرتے دیکھے گئے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ گرمی میں شدت آنے کے حوالے سے امید ظاہر کی جارہی تھی کہ سیاح بڑی تعداد میں کشمیر آئیں گے ۔ محکمہ سیاحت کا بھی خیال تھا کہ لوگ بڑی تعداد میں وادی پہنچ جائیں گے ۔ اس حوالے سے بڑے پیمانے پر تیاریاں جاری ہیں ۔ اس نازک مرحلے پر جنگجووں نے اپنے حملوں میں شدت لانا شروع کی ۔ ان حملوں سے یقینی طور کوف وہراس پیدا ہونے کا خدشہ ہے ۔ اگرچہ ابھی ایسا کو ئی تاثر نہیں ملا رہا ۔ وگ حملوں ، زخمی ہونے یا مرجانے کی وجہ سے کاروبار زندگی تر ک کرنے کے حق میں نہیں ہیں ۔ لوگ پچھلی تین دہائیوں سے اس طرح کی سرگرمیوں میں زندگی گزار رہے ہیں ۔ یہ اس طرح کے حملوں کے عادی بن گئے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ گن گرج کے دوران لوگ اب روزمرہ کی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ ان حملوں سے روز مرہ کے معمولات میں کچھ زیادہ فرق نہیں پڑتا ہے ۔کچھ سال پہلے کہیں گولی چلتی تو تعلیمی ادارے کچھ ہی منٹوں کے اندر بند ہوجاتے اور طلبہ خوف کی وج سے گھروں کو بھاگ جاتے تھے ۔ اب ایسی صورتحال نہیں ہے ۔ حالات میں کافی بدلائو آگیا ہے ۔ لوگ گولیوں کے شور میں جینے کے عادی بن چکے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ روزمرہ کے معمولات اب زیادہ اثر انداز نہیں ہوتے ۔ تاہم اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے ک پلوامہ حملے جیسے واقعات سیاحوں کی کشمیر آمد میں رکاوٹ ڈال سکتے ہیں ۔ ایسے واقعات سے سیاحتی سیزن میں خلل آنے اک خطرہ ہے ۔ سیاحتی سیزن سے جڑے لوگوں کی امیدوں پر پانی پھر سکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے ک ایسے موقعے پر جنگجو حملوں پر افسوس کا اظہار کیا جاتا ہے ۔