سوموار کو مشتبہ جنگجووں نے مائسمہ سرینگرمیں حملہ کرکے دو سیکورٹی اہلکاروں کو شدید زخمی کیا ۔ ان میں ایک اہلکار مبینہ طور زخموں کی تاب نہ لاکر بعد میںدم توڑ بیٹھا ۔ اسی روز بعد دوپہر شوپیان میں ایک پنڈت دکاندار پر بھی نزدیک سے گولی چلاکر اسے زخمی کیا گیا ۔ اس سے پہلے پلوامہ میں غیر مقامی باشندوں پر دو حملے ہوئے ۔ ان حملوں میں چار مزدوروں کو گولی مار کر زخمی کیا گیا ۔ حملوں کی اس سیریز سے سخت خوف وہراس کا ماحول پیدا ہوگیا ہے ۔ ان حملوں پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا نے سخت افسوس کا اظہار کیا ۔ انہوں نے ان حملوں کے حوالے سے خبردار کیا کہ سرکار ان حملوں پر خاموش نہیں رہے گی بلکہ ان کا سخت ترین جواب دیا جائے گا ۔ اسی طرح پولیس اور دوسرے حفاظتی حلقوں نے ان حملوں میں ملوث افراد کے خلاف جلد کاروائی کرنے کا اشارہ دیا ہے ۔ یاد رہے کہ پچھلے ہفتے سرینگر میں ایک برقعہ پوش خاتون نے اسی طرح کے حملے میں سیکورٹی پکٹ پر پٹرول بم پھینکا ۔ ابھی چوبیس گھنٹے بھی نہ گزرے تھے کہ حملہ کرنے والی خاتون کو سوپور میں گرفتار کیا گیا ۔ خاتون کے بارے میں کہا گیا کہ جنگجووں کے لئے طویل عرصے سے کام کررہی ہے۔ پولیس اس پر نظر رکھے ہوئے تھی ۔ اس کے خلاف پہلے ہی کئی مقدمے درج ہیں ۔ سرینگر میں اس نے حملہ کیا تو اگلے روز پولیس کے ہتھے چڑھ گئی ۔ اس تناظر میں یہ مشکل نہیں کہ حفاظتی حلقے بہت جلد دوسرے ایسے عناصر کی نشاندہی کرکے انہیں پکڑ لیں گے ۔ تاہم حملوں کی اس سیریز نے عام لوگوں کو حیران وپریشان کیا ہے ۔
کشمیر میں جنگجووں کی طرف سے حملے کوئی نئی بات نہیں ۔ کشمیر میں امن و امان کی جب بھی کوشش آگے بڑھنے لگتی ہے تو کوئی نہ کوئی ایسا حادثہ پیش آتا ہے جس سے امن میں خلل آتی ہے ۔ پچھلے کچھ ہفتوں سے اس بات کا امکان بڑھ رہا تھا کہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر سیاح سیر و تفریح کے لئے آرہے ہیں ۔ کووڈ کی وبائی صورتحال نے دو سالوں سے لوگوں کو اپنے گھروں میں بندکیا ہوا ہے ۔ اس وجہ سے لوگ سخت ذہنی تنائو محسوس کررہے ہیں ۔ لوگ چاہتے ہیں کہ وہ خود بنائے گئے حصار سے نکل کر تفریحی مقامات کا سیر کریں تاکہ ان کا ذہنی تنائو دور ہوجاے ۔ اس کے لئے انہیں کشمیر سے بہتر کوئی جگہ نہیں مل سکتی ہے ۔ حکومت نے سیر وتفریح کے خواہش مند لوگوں کو یقین دلایا تھا کہ کشمیر میں حالات کنٹرول میں ہیں اور امن دشمن عناصر کی سرگرمیاں ختم کی گئی ہیں ۔ پچھلے دو مہینوں کے دوران یہاں آنے والے سیاح بھی اس بات سے واقف کرارہے تھے کہ کشمیر کے حلات میں بہتری آگئی ہے اور کسی طرح کا خوف و ہراس نہیں پایا جاتا ہے ۔ ابھی لوگ یہ باتیں سن رہے تھے اور کشمیر آنے کی تیاریوں میں لگے ہوئے تھے ۔ کہ یہاں مشتبہ حملے ہونے لگے ۔ ان حملوں میں باہر کے مزدوروں وک نشانہ بنایا گیا ۔ ان حملوں کے ہدف اور طریقہ کار سے لگتا ہے ک حملہ آور محض خوف وہراس پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ باہر سے آنے والے لوگوں کو خوف زدہ کیا جائے ۔ تولپ گارڈن کھولنے پر جتنی تعداد میں سیاح کشمیر وارد ہوئے ۔ اس کے ساتھ کشمیر کے نوجوان بڑی تعداد میں یہاں سیر وتفریح کرتے دیکھے گئے ۔ اس سے اندازہ لگایا گیا کہ یہاں کے عوام چاہتے ہیں کہ حالات میں بہتر آئے اور انہیں تفریح کرنے کا موقع ملے ۔ اس دوران مشتبہ بندوق برداروں نے پہلے جنوبی کشمیر اور پھر سرینگر میں حملہ کرکے امن و امان کے دعووں کو جھٹلانے کی کوشش کی ۔ کئی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے حملوں سے کوئی بڑی تبدیلی آنا ممکن نہیں ۔ ان حلقوں کا کہنا ہے کہ باہر سے آنے والے مزدور جہاں اپنی کمائی کے لئے یہاں آتے ہیں وہاں کشمیر کے لوگوں کو ان کی سخت ضرورت ہے ۔ یہ مزدور ضرور توقع سے زیادہ کمائی کرتے ہیں ۔ اس کی بڑی اور اہم وجہ یہ ہے کہ یہاں کے نوجوان مزدوری کرنا پسند نہیں کرتے ہیں ۔ سخت محنت کرکے پیسہ کمانا یہاں کے نوجوانوں کی عادت نہیں ہے ۔ اس وجہ سے جہاں دن بہ دن بے روزگاری بڑھتی جارہی ہے وہاں غیر مقامی باشندوں کی جرورت بھی بڑھتی جارہی ہے ۔ ان مزدوروں کے بغیر کوئی کام انجام پانا ممکن نہیں ہے ۔ جب بھی یہ مزدور آنے میں دیر لگاتے ہیں تو یہاں کا سارا کام رک جاتا ہے ۔ باغوں ، کھیتوں اور گھروں میں کام کرنے کے علاوہ اب ٹھیکہ دار بیشتر سرکاری کام ان ہی بہاری اور بنگالی مزدوروں کی مدد سے انجام دیتے ہیں ۔ یہ مزدور واپس جائیں تو خدشہ ہے کہ یہاں کا سارا کاروبار ٹھپ پڑجائے گا ۔ یہی وجہ ہے ک مزدور طبقے پر اس طرح کے حملے افسوسناک قرار دئے جاتے ہیں ۔