انسپکٹر جنرل آف پولیس نے کشمیری پنڈتوں کو مشورہ دیا ہے کہ و ہ وادی چھوڑ کر نہ جائیں ۔ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے یقین دلایا کہ پنڈتوں کو ان کی ضرورت کے مطابق سیکورٹی فراہم کی جائے گی اور انہیں گھر چھوڑ کر نہیں جانا چاہئے ۔ ان کا یہ مشورہ اس وقت سامنے آیا جب درجنوں کشمیری پنڈت حالیہ ٹارگٹ کلنگ کے خلاف احتجاج کررہے تھے ۔ پنڈت الزام لگارہے کہ ان کی ہلاکتوں کو روکنے کے لئے صحیح اقدامات نہیں کئے جارہے ہیں ۔ بلکہ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہیں جان بوجھ کر مروایا جاتا ہے ۔ کشمیری پنڈت اس بات پر سخت احتجاج کررہے ہیں کہ حالیہ ہلاکتوں کے دوران انہیں بہتر سیکورٹی فراہم نہیں کی گئی ۔ احتجاج کرنے والوں کا خیال ہے کہ انہیں جان بوجھ کر مروایا جاتا ہے اور کچھ حلقے اس کا فائدہ اٹھاکر اپنا ووٹ بینک بنارہے ہیں ۔ ان ہلاکتوں کی وجہ سے کشمیری پنڈتوں میں مبینہ طور خوف وہراس پھیلا ہوا ہے اور وہ کشمیری چھوڑنے کے آپشن پر غور کررہے ہیں ۔ اس دوران پولیس کے آئی جی پی نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ کشمیر چھوڑکے نہ جائیں ۔ ان کا یہ مشورہ بروقت اور موقع و محل کے لحاظ سے بہت ہی اہم بیان خیال کیا جاتا ہے ۔ ملین ڈالر کا مشورہ دیتے ہوئے ان کی کوشش ہے کہ کشمیری پنڈتوں کو کسی بھی صورت میں یہاں سے نہیں جانا چاہئے ۔ ایسا ہوا تو کشمیری بھائی چارے کو ایک بار پھر داغدار کئے جانے کا اندیشہ ہے ۔ کشمیری پنڈتوں نے نوے کی دہائی میں کشمیر چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور کئی سو خاندان راتوں رات بھاگ کر ملک کے مختلف کونوں اور حصوں میں چلے گئے۔ کشمیری پنڈتوں کے کشمیر چھوڑ کر جانے کو پہلے پسند کیا گیا نہ اب صحیح قدم سمجھا جاتا ہے ۔ یہاں ٹارگٹ کلنگ کا مسئلہ پہلی بار سامنے نہیں آیا ۔ بلکہ اس سے پہلے بڑی تعداد میں لوگ مارے جاتے تھے ۔ تاہم کشمیری پنڈتوں نے نوے کی دہائی کے بغیر کبھی بھی گھربارچھوڑنے کو ترجیح نہیں دی ۔
کشمیری پنڈتوں نے حالیہ ہلاکتوں کو لے کر کئی جگہوں پر سڑکوں پر آکر احتجاج کیا ۔ احتجاج میں اس وقت شدت آگئی جب بڈگام میں تحصیل آفس میں کام کرنے والے ایک پنڈت ملازم کو گولی مار کر ہلاک کیا گیا ۔ ہلاکت کے اس واقعے کو لے کر کئی حلقوں نے تشویش کا اظہار کیا ۔ سیاسی حلقوں نے اس کی بڑے پیمانے پر مذمت کی ۔ اس کے باوجود کشمیر کے دور دراز کے علاقوں میں پھیلے کشمیری پنڈت خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے ۔ اس حوالے سے یہ بات بڑی اہم ہے کہ کشمیری پنڈت نوے کی دہائی میں جب وادی چھوڑ کر چلے گئے انہیں واپس لانے کے لئے اس وقت سے برابر کوششیں کی جارہی ہیں ۔ یہ کوششیں آج تک کامیاب نہیں ہوسکیں ۔ اس کی کئی وجوہات بتائی جاتی ہیں ۔ جو پنڈت کشمیر میں پیدا ہوکر یہیں پلے بڑھے تھے ان کی بڑی تعداد اب اس دنیا میں نہیں ہے ۔ جو جنریشن اس وقت موجود ہے انہوں نے یہی خوف ، ڈر اور خون کرابہ دیکھا ۔ ایسے ماحول میں وہ واپس آنے کے لئے تیار نہیں ۔ انہوں نے کشمیر سے باہر موجود اداروں میں روزگار تلاش کیا اور اچھی خاصی کمائی کررہے ہیں ۔ کشمیر آکر انہیں ایسا روزگار نہیں مل سکتا نہ ان کے بچوں کو تعلیم اور تربیت کے ایسے مواقع حاصل ہوسکتے ہیں جو انہیں باہر مل رہے ہیں ۔ ان میں سے کئی ایک بیرون ملک کام کررہے ہیں اور کئی عالمی شہرت یافتہ کمپنیوں کے اعلیٰ عہدوں پر تعینات ہیں ۔ ایسے میں ان کے لئے ممکن نہیں کہ وہ یہاں آکر دوسروں کے ماتحت کام کریں ۔ سب سے اہم بات جان کی حفاظت ہے ۔ خوف کے ماحول میں ان کے لئے زندگی بسر کرنا بہت ہی مشکل ہے ۔ اس کے باوجود یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ کشمیر میں موجود صدیوں پرانے کلچر کو بگاڑا نہیں جاسکتا ۔ اس کلچر کو قائم رکھنے کے لئے پنڈتوں ، سکھوں اور ڈوگروں کی موجودگی بڑی اہم ہے ۔ اب بچے کھچے پنڈت کشمیر چھوڑ کر جانے کا سوچیں تو یہ کشمیریت کے لئے نقصان دہ ہوگا ۔ اس طرح کے ماحول کو برقرار رکھنے کے لئے پورے سماج کو مل جل کر کام کرنا ہوگا ۔ پنڈتوں کو تنہا نہیں چھوڑنا ہوگا ۔ پولیس سربراہ نے پنڈتوں کو کشمیر میں ہی رہنے کا مشورہ دیا اور انہیں سمجھایا کہ وادی چھوڑ کر نہ چلے جائیں ۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ وہ انہیں تحفظ فراہم کرنے کا سگنل دے رہے ہیں ۔ لیکن اتنا ہی کافی نہیں ۔ ایسے میں انہیں دوسرے طبقوں کا آشیرواد بھی چاہئے ۔ پنڈت جن علاقوں میں رہتے ہیں وہاں انہیں عوام کا سپورٹ ملنا ضروری ہے ۔ اکثر علاقے ایسے ہیں جہاں مار دھاڑ کا کوئی خوف نہیں ۔ اس کے باوجود پنڈتوں کو اپنانے کی ضرورت ہے ۔ تاکہ وہ وادی چھوڑ کر نہ جائیں ۔