کشمیر جل شکتی محکمے نے اعلان کیا ہے کہ بارشوں کے پانی کو محفوظ کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ۔ اس منصوبے سے مبینہ طور بارشوں کا پانی ذخیری کرنے کا کام آسان ہوگا ۔ تاکہ خشک سالی کے ایام کے دوران ذخیرہ کئے گئے پانی کو استعمال میں لایا جاسکے ۔ محکمے کا کہنا ہے کہ اس سے عام لوگوں کو سہولت میسر آئے گی ۔ جل شکتی محکمے اک دعویٰ ہے کہ مجوزہ منصوبے کے تحت کپوارہ میں پانی ذخیرہ کرنے کے کام کا پہلے ہی آغاز کیا گیا ہے ۔ حکام اس حوالے سے مطمئن ہیں کہ پانی کو محفوظ کرنے کا یہ منصوبہ کامیاب رہے گا اور آنے والے وقت میں کئی طرح کی مشکلات کو قابو میں کرنے کا باعث ہوگا ۔ اس منصوبے کے ذریعے جیسا کہ محکمے کے حکام بتاتے ہیں کہ پینے کا پانی اور کھیتوں کی آبپاشی کے لئے پانی میسر آئے گا ۔ ان حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ منصوب جدید خطوط پر تیار کیا گیا ہے اور آنے والے وقت میں کارآمد ثابت ہوگا ۔
پوری دنیا میں پانی کی قلت کو ختم کرنے کے لئے آبی ذخائر محفوظ کرنے کے علاوہ بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں ۔ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے کہ پانی کو کیسے محفوظ کیا جائے تاکہ گلوبل وارمنگ کی صورت میں اس سے پیدا ہونے والی صورتحال پر قابو پایا جاسکے ۔ ترقی یافتہ ممالک بھی اس حوالے سے سخت تشویش میں مبتلا ہیں کہ لوگوں کو ان کی ضرورت کے مطابق پانی فراہم کرنا ممکن نہیں ہورہاہے ۔ خاص طور سے بڑے بڑے شہروں کے اندر لوگوں کو اس حوالے سے سخت مشکلات کا سامنا ہے ۔ یہاں لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر کرنے میں مشکلات پیش آرہی ہیں ۔ شہروں کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے ۔ لوگ دیہات کو چھوڑ کر شہروں میں آباد ہورہے ہیں ۔ اس وجہ سے نئی کالونیاں وجود میں آرہی ہیں ۔ ان کالونیوں کے لئے سڑکیں ، بجلی اور پینے کا پانی میسر رکھنے میں سرکار کو مشکلات پیش آرہی ہیں ۔ اس کے علاوہ بھی کئی علاقوں کے عوام کو بنیادی سہولیات خاص طور سے پینے کا پانی میسر رکھنا ناممکن بن رہاہے ۔ لوگوں کو انفرادی طور بارشوں کا پانی جمع رکھنے اور بعد کے ایام میں اسے استعمال کرنے کی طرف راغب کیا گیا ۔ لوگوں نے ٹینکیاں لاکر مکانوں کے چھتوں میں پرنالے نصب کرکے حاصل ہونے والے پانی کو ذخیرہ کیا ۔ اس سے تو کسی حد تک سہولت ملی ۔ لیکن مسئلے کو اس کوشش سے پوری طرح حل نہیں کیا جاسکا ۔ اب حکومت چاہتی ہے کہ بڑے پیمانے پر بارش کے پانی کو ذخیرہ کیا جائے ۔ اس کاکام کی شروعات مبینہ طور کپوارہ سے کی جارہی ہیں ۔ حالانکہ اس سے پہلے بھی کپوارہ میں اس طرح کا ایک بڑا منصوبہ بنایا گیا ۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ ایک بڑا اسکنڈل تھا جس کے ذریعے کئی افراد نے کروڑوں روپے تو ہڑپ کرلئے ہیں لیکن منصوبے سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا ہے ۔ اب جو نیا منصوبہ بنایا گیا ہے اس کا بلیو پرنٹ سامنے لانے کے بجائے بس اتنا کہا گیا کہ اس سے بارش کا پانی ذخیرہ کرنے میں مدد ملے گی ۔ یہ پہلے منصوبے کا فوٹو کاپی ہوگا یا واقعی عوامی بہبود کا کوئی منصوبہ ہوگا اس بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا ۔ ہم کئی بار دیکھ چکے ہیں حکومت کسی بیرو کریٹ یا ٹھیکہ دار کو فائدہ پہنچانا چاہتی ہے تو اس کو ڈل کے کسی حفاظتی پروجیکٹ سے منسلک کرتی ہے ۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے ایسا شخص کروڑوں میں کھیلنے لگتا ہے ۔ کئی آفیسروں کے خلاف آج بھی کئی اداروں میں مقدمے درج ہیں ۔ ان کی فائلوں پر دھول کی تہیں جمی ہیں ۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ۔ کشمیر میں ایک نہیں اس طرح کے درجنوں واٹر گیٹ اسکنڈل پائے جاتے ہیں ۔ ایسے اسکنڈلوں میں کمی آنے کے بجائے دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہاہے ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ سرکار بھی کانٹ چھانٹ کر کچھ لوگوں کو تختہ مشق بناتی اور کچھ کو دیانت داری کا سرٹفکیٹ دیا جاتا ہے ۔ ایسے لوگوں کے خلاف کاوائی نہ ہونے کی وجہ سے دوسرے لوگ بھی شیر بن جاتے ہیں اور بڑی ڈھٹائی سے سرکار کو لوٹنے میں پیش پیش رہتے ہیں ۔ کئی ایسے لوگ آج بھی سماج پر چھودھراہٹ قائم کئے ہوئے ہیں جو صرف رشوت کی بنیاد پر اپنا وجود بحال رکھنے میں کامیاب رہے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ ایسے منصوبوں کو عوام کی بہبود کا نہیں بلکہ چند اشخاص کو خوش کرنے کاباعث مانتے ہیں ۔ کشمیر میں ابھی پانی کی بڑے پیمانے پر کوئی قلت محسوس نہیں کی جاتی کہ بارش کے پانی کو محفوظ بنانے کی ضرورت پیش آئے ۔ یہاں پانی کے وسیع ذخیرے قدرت نے فراہم کئے ہیں ۔ عوام اور حکومت پانی کے ان ذخائر کو تباہ کررہی ہے ۔ بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے بجائے پانی کے قدرتی وسائل کو محفوظ کیا جائے تو قلت کو دور کیا جاسکتا ہے ۔ ان ذخائر کی چھیڑ چھاڑ سے دور رہاجائے تو یہاں پانی کی کمی کو دور کیا جاسکتا ہے ۔ لیکن ایک طرف پانی کے قدرتی ذرایع کو تباہ کیا جارہاہے ۔ دوسری طرف بارش کے پانی کو محفوظ بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں ۔ یہ متضاد کو ششیں ہیں ۔ یہ بڑی مایوس کن منصوبہ بندی ہے ۔