ملک کے کئی حصوں کی طرح جموں کشمیر میں بھی سوموار کو بجلی کی نجکاری کے خلاف سخت احتجاج کیا گیا ۔ الیکٹرک انجینئرز یونین کی طرف سے منظم کئے گئے اس احتجاج کے موقعے پر سرکار کی طرف سے لئے گئے فیصلے کو عوام دشمن فیصلہ قرار دیا گیا ۔ بجلی کی نجکاری کے حوالے سے سرکار نے پارلیمنٹ میں ایک بل پیش کرنے کا اعلان کیا ۔ اپوزیشن کی طرف سے اٹھائے گئے اعتراضات کے پیش نظر بل کو نظر ثانی کے لئے سیلکٹ کمیٹی کے حوالے کیا گیا ۔ کمیٹی کی طرف سے حتمی فیصلہ لئے جانے تک فی الحال بجلی کی نجکاری کا فیصلہ تو ٹل گیا ۔ تاہم کئی حلقوں کا ماننا ہے کہ سرکار دیریا سویر اس بل کو پاس کرائے گی جس سے بجلی سپلائی کے پرائیویٹ کمپنیوں کے ہاتھوں میں جانے کا اندیشہ ہے ۔ بجلی موجودہ زمانے میں انسان کی بنیادی ضرورت بن گئی ۔ اس ضرورت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پرائیویٹ کمپنیوں کی طرف سے بڑے پیمانے پر استحصال کا اندیشہ ہے ۔ ان ہی اندیشوں کی وجہ سے بیشتر حلقے بجلی کی پرائیواٹائزیش کو عوام کش اقدام قرار دیتے ہیں ۔
سرکار نے پہلے ہی کئی کمپنیوں کو فروخت کرکے نجی ہاتھوں میں دیا ہے ۔ ریل سروس کے حوالے سے اسی طرح کے اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ اس سے پہلے ہوائی سروس کو قریب قریب نجی ہاتھوں میں دیا جاچکا ہے ۔ اس سے ملک کی ہوائی سروس پر کئی طرح کے منفی اثرات پڑے ہیں ۔ بلکہ کئی لوگ الزام لگارہے ہیں کہ نجی کمپنیوں کے عمل دخل کی وجہ سے ہوائی سروس بہت ہی ناقص صورت اختیار کرچکی ہے ۔ ایک زمانے میں ہندوستان کی ائر سروس اعلیٰ معیار کی سمجھی جاتی تھی ۔ لیکن آہستہ آہستہ زوال کا شکار ہوئی اور اب لوگ اس سروس کا فائدہ اٹھانے سے ہچکچاتے ہیں ۔ زمینی ٹرانسپورٹ کے پرائیویٹ ہاتھوں میں چلے جانے سے لوگوں کو سخت مشکلات کا سامنا ہے ۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ اب سفر ان کے لئے دن بہ دن دشوار بنتا جارہاہے ۔ ان تجربات کے بعد عام صافین کا خیال ہے کہ بجلی کی نجکاری سے اس کی سپلائی میں بہتری آنے کے بجائے کئی طرح کے نقائص پیدا ہونے کا اندیشہ ہے ۔ جموں کشمیر میں بجلی کا معاملہ ایک نازک معاملہ سمجھا جاتا ہے ۔ پچھلے ستھر سالوں سالوں لوگوں کو مفت بجلی کی عادت ڈالی گئی ہے ۔ کوئی خاص فیس وصول کئے بغیر لوگوں کو بغیر حد وحساب بجلی استعمال کرنے کی اجازت دی گئی ۔ جب بھی بجلی نظام کو پٹری پر لانے کی کوشش کی گئی تو سیاست دانوں نے اس کی راہ میں روڑے اٹکائے ۔ لوگوں نے بھی بڑے پیمانے پر احتجاج کرکے ایسے کسی فیصلے وک ماننے سے انکار کیا ۔ یہاں تک کہ بجلی کی سبسڈی پر سرکار کو بجٹ کا بڑا حصہ خرچ کرنا پڑا ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ جموں کشمیر میں پن بجلی تیار کرنے کے قدرتی وسائل وافر مقدار میں موجود ہیں ۔ اس کے لئے پانی کے بے حد وحساب ذخائر مہیا ہیں ۔ سرکار ان کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک کے کئی حصوں کو کم قیمت پر بجلی فراہم کرتی ہے ۔ اسی دوران عوام پر دبائو ڈالا جارہاہے کہ مفت بجلی کے بجائے انہیں خرید کر بجلی استعمال کرنی چاہئے ۔ عجیب بات یہ ہے کہ بجلی کی قیمت سرکار اپنی مرضی سے طے کرتی ہے ۔ پچھلی کئی سالوں سے فلیٹ ریٹ مقرر کرکے صارفین کو بجلی فراہم کی جارہی ہے ۔ آبادی کا بڑا حصہ ایسا ہے جو بجلی کی مہیا مقدار سے زیادہ قیمت دے کر اس کا استعمال کرتے ہیں ۔ اس کے باوجود ایسا تاثر دیا جاتا ہے کہ لوگ خیرات کی صورت میں بجلی کا استعمال کرتے ہیں ۔ زمینی حقیقت اس کے الکل برعکس ہے ۔ اس دوران بجلی کی نجکاری کی کوششیں ہورہی ہیں ۔ بلکہ بجلی کو نجی ہاتھوں میں دینے کا منصوبہ قریب قریب حتمی صورت اختیار کرچکا ہے ۔ سرکار نے پوری طرح سے من بنایا ہے کہ بجلی کوپرائیویٹ ہاتھوں میں دے کر ملکی سرمایہ کو بچایا جاسکتا ہے ۔ اس فیصلے میں کیا عوامل کارفرما ہیں ، یہ الگ بات ہے ۔ تاہم اندازہ ہے کہ کسی نہ کسی مرحلے پر بجلی کی نجکاری ہوہی جائے گی ۔ لوگوں کو اس فیصلے کو تسلیم کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے ۔ ادھر سولر بجلی کا استعمال تیزی سے فروغ پارہاہے ۔ اس پر کافی پیسہ خرچ کرنا پڑتا ہے جو کہ غریب عوام کی دسترس سے باہر ہے ۔ حکومت نے جس طرح اجوالا منصوبے کے تحت رسوئی گیس مفت فراہم کرکے لوگوں کو راحت فراہم کرنے کی کوشش کی ۔ اسی طرح سولر بجلی کے حوالے سے کوئی اسکیم سامنے لانے کی ضرورت ہے ۔ تاکہ عام اور غریب شہری کو اس سے بجلی فراہم کی جاسکے ۔ متبادل فراہم کئے بغیر بجلی کو نجی ہاتھوں میں دینا صحیح فیصلہ نہیں ۔ اس کے عام لوگوں پر اثرات کا جائزہ لینا ضروری ہے ۔ اس دوران لوگوں کو راحت پہنچانے کے لئے سولر پینل فراہم کرنا ضروری ہے ۔ جب ہی بجلی پر بنا اوور لوڈ کم کیا جاسکتا ہے ۔ بجلی کو خرید کر استعمال کرنا عام لوگوں کی دسترس سے باہر ہے ۔ اس حوالے سے راحت رسانی کی کوئی اسکیم تیار کرنا ضروری ہے ۔
