جموں کشمیر میں خواتین پر تشدد کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ خواتین کو جسمانی اور ذہنی تشدد کا شکار بنانے کے واقعات آئے دن پیش آتے ہیں ۔ تشویش کی باعث یہ بات ہے کہ تشدد کے ایسے واقعات میں پھر اضافہ دیکھنے کو مل رہاہے ۔ تازہ ترین سروے میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ پچھلے سال کے دوران جموں کشمیر میں خواتین پر تشدد کے واقعات میں 15 کا اضافہ ہوا ہے ۔ قومی سطح کے ایک ادارے کی طرف سے کئی گئی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ تشدد کے ایسے واقعات تیزی سے بڑھتے جارہے ہیں ۔ یہ ایسے واقعات کی بنیاد پر جانچ کی گئی ہے جو واقعات کسی نہ کسی طرح سے منظر عام پر آئے ہیں ۔ ایسے کے علاوہ بہت سے ایسے واقعات بھی پیش آئے ہیں جن کی کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی ۔ خواتین پر تشدد کے بیشتر واقعات اندر ہی اندر سے دم توڑتے ہیں ۔ ان واقعات کو شرم وحیا کی وجہ سے یا خاندانی اقدار کو دیکھ کر دبایا جاتا ہے ۔ خواتین میں ابھی ایسا رجحان نہیں پایا جاتا کہ وہ اپنے اوپر ہورہے تشدد کے خلاف اٹھ کھڑا ہوجائیں یا ان کے لئے قانونی چارہ جوئی کریں ۔ خواتین کے والدین اور دوسرے لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ ایسے واقعات پر صلح صفائی سے کام لیا جائے اور ان کو آگے نہ لیا جائے ۔ کوئی دوسرا اوپشن نہیں رہتا ہے تو پولیس یا عدالت میں رپورٹ درج کی جاتی ہے ۔ ایسے ہی واقعات کی بنیاد پر سروے میں بتایا گیا ہے خواتین پر تشدد میں اضافہ ہورہاہے ۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ تشدد کے ایسے واقعات مٰں خواتین کی موت بھی ہوئی ہے اور کئی ایک عمر بھر کے لئے ناخیز ہوئی ہیں ۔ انہیں پالنے یا اپنے ساتھ رکھنے کے لئے سسرال والے تیار ہیں نہ میکے میں انہیں پناہ مل رہی ہے ۔ اس قسم کے واقعات سے کسی خاندان پر ہی نہیں بلکہ پورے معاشرے پر برے اثرات پڑنے کا اندیشہ ہے ۔
پرانے اور جہالیت پسند سماج میں خواتین پر تشدد ایک عام سی بات تھی ۔ لیکن اب پڑھے لکھے اور جدید خیالات کے حامی خاندانوں میں بھی خواتین پر تشدد کیا جاتا ہے ۔ یہاں تک کہ پڑھی لکھی اور تنخواہ لینے والی خواتین کو بھی مبینہ طوربے عزت کیا جاتا ہے ۔ ایسی خواتین پر تعلیمی اداروں اور دفتروں میں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ بلکہ بیشتر خواتین کو شکایت ہے کہ انہیں اپنے ہم پیشہ افراد کی طرف سے جنسی تشدد اور استحصال کا سامنا رہتا ہے ۔ خواتین کے معاملے میں پسماندہ معاشروں میں عام طور پر سخت پست ذہنیت کا اظہار کیا جاتا ہے ۔ انہیں وہ مقام نہیں دیا جاتا جس کی یہ حقدار ہیں ۔ بلکہ انہیں پسماندہ ہی خیال کیا جاتا ہے ۔ اس حوالے سے ان پڑھ اور پڑھے لکھے لوگوں میں کوئی خاص فرق نہیں پایا جاتا ہے ۔ اس حوالے سے یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ معمولی قسم کی مراعات حاصل کرنے کے لئے خواتین بھی اپنی عزت نیلام کرنے کو تیار ہوتی ہیں ۔ بیشتر خواتین کے حوالے سے یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ دفتروں میں کام کرنے کے بجائے ہاتھ پر ہاتھ دھری بیٹھی رہتی ہیں ۔ اس غرض سے دوسرے ساتھیوں کے ناز نخرے اٹھاتی ہیں اور ان کی ہوس کا شکار بھی بن جاتی ہیں ۔ خواتین کو ذلیل ہونے سے بچنے کے لئے اپنے کام کا طریقہ بدلنا ہوگا ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ خواتین کو دفتروں میں مردوں کے برابر حقوق ملنے چاہئے ۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ خواتین خود کو اس کا حقدار ثابت کریں ۔ طبی اداروں میں کام کرنے والی خواتین جس طریقے سے اپنا کام انجام دیتی ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں صلاحیت کی کوئی کمی نہیں ۔ بلکہ طبی ادارے ان کی مدد کے بغیر چلانا ممکن نہیں ۔ جب وہاں خواتین اپنا کام بہتر طریقے سے انجام دے سکتی ہیں تو دوسرے سرکاری دفتروں میں ایسا کیوں ممکن نہیں ۔ اسی طرح نجی تعلیمی اداروں میں خواتین کو مردوں پر فوقیت دی جاتی ہے ۔ سرکاری اسکولوں میں خواتین اساتذہ جس قدر کام چور سمجھی جاتی ہیں پرائیویٹ اسکولوں میں انہیں اسی قدر بہتر ورکر قرار دیا جاتا ہے ۔ طلبہ زیادہ تر استانیوں سے سبق لینا پسند کرتے ہیں ۔ اس کے باوجود اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ بیشتر معاملوں میں خواتین کو مردوں سے کم تر سمجھا جاتا ہے ۔ شادی شدہ خواتین کو بہت زیادہ تشدد کا سامنا رہتا ہے ۔ سفر کے دوران ان سے بہتر سلوک نہیں کیا جاتا ۔ اس کے علاوہ ان کے حوالے سے رشتوں کا پاس و لحاظ نہیں رکھا جاتا ۔ بہت ہی کم خاندان ایسے ہیں جہاں بہو کو بیٹی کے ہم پلہ خیال کیا جاتا ہے ۔ اکثر و بیشتر انہیں خوف زدہ کیا جاتا ہے اور حد سے زیادہ کام ان سے لیا جاتا ہے ۔ اس کا اثر ان کی صحت پر پڑتا ہے ۔ حیران کن بات یہ ہے کہ مردوں سے زیادہ خواتین ایک دوسرے کے خلاف نفرت کا اظہار کرتی ہیں ۔ اس صورتحال وک بدلنے کے لئے خواتین کو قانونی تحفظ دینا ہوگا اور انہیں ایسے حقوق سے باخبر کرنے کی مہم چلانا ہوگی ۔
