پچھلے دنوں سعودی عرب میں بھارت کے سفیر ڈاکٹر سہیل خان نے کشمیر آکر کئی حلقوں کے ساتھ صلاح مشورہ کیا ۔ اس سے پہلے انہوں نے انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیداروں سے میٹنگ کی ۔ بعد میں کئی کاروبار ی انجمنوں کے نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کئے گئے ۔ ان ملاقاتوں کے دوران مبینہ طور کشمیر اور سعودی عرب کے مابین کاروبار کو بڑھاوا دینے کے حوالے سے کئی امور زیربحث لائے گئے ۔ کاروباری حلقوں نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ ملک کی اعلیٰ قیادت کشمیر میں برآمدی امکانات کا جائزہ لے کر کاروبار کو وسعت دینے کی کوششوں میں مصروف ہے ۔ سرینگر کی کئی تجارتی انجمنوں کے نمائندوں نے ایسی کوششوں کی سراہانا کی اور امید ظاہر کی کہ بہت جلد نتائج سامنے آئیں گے ۔ سعودیہ میں بھارت کے سفیر نے ان انجمنوں کے نمائندوں کے ساتھ تفصیلی بات چیت کی اور امید دلائی کہ مرکزی سرکار کشمیر تجارت کو فروغ دینے میں مد د فراہم کرے گی ۔ایسا ہوجائے تو یقینی طور اس کا بڑا فائدہ ملے گا ۔سرینگر میں منعقدہ G20 عالمی کانفرنس کے بعد یہ کسی اعلیٰ عہدیدار کا پہلا کشمیر دورہ ہے جس سے امید بڑھ گئی ہے کہ کشمیر کو اس تناظر میں مالی فائدہ حاصل ہوگا ۔ اس سے پہلے تمام ایسی سرگرمیاں سیاحتی شعبے تک ہی محدود نظر آتی تھیں ۔ جو بیرونی نمائندے عالمی کانفرنس میں شرکت کے لئے سرینگر آئے وہ سیاحتی سرگرمیوں پر ہی صلاح مشورہ کرنے کی غرض سے آئے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ سیاحتی شعبے کے حوالے سے خوش گمانیوں کا اظہار کیا جارہاتھا ۔ اب تجارت کو لے کر جو سرگرمیاں سامنے آرہی ہیں ان سے انداز ہورہاہے کہ مرکزی سرکار کی دلچسپی کسی ایک شعبے تک محدود نہیں ۔ بلکہ ہمہ گیر ترقی کی جو باتیں ہورہی ہیں ان کو بنیاد ی سطح پر فروغ دیا جارہاہے ۔
کشمیر کے تجارتی حلقے بہت پہلے سے مطالبہ کررہے ہیں کہ انہیں دہلی اور ملک کے دوسرے شہروں کے ساتھ بیرون ملک تجارتی سرگرمیاں بڑھانے میں مدد دی جائے ۔ خاص طور سے خلیجی ممالک کے ساتھ تجارت کرنے کی مانگ کی جارہی ہے ۔ اس بات کا حوالہ بار بار دیا جارہاہے کہ آزادی سے پہلے سلک روٹ کے ذریعے کشمیر کے تاجر دنیا بھر کے اہم شہروں تک اپنی اشیا لے جاتے تھے ۔ بلکہ براطنیہ کے حکمران حلقے میں کشمیر میں تیار کی گئی کئی اشیا کو پسند کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ۔ کشمیر کے شال دوشالے اور پیپر معاشی کی مختلف اشیا وہاں فروخت کی جاتی تھیں ۔ انگریزوں کے چلے جانے اور جمہوری حکومت قائم ہونے کے بعد کشمیر کا بیرونی دنیا سے رابطہ ختم کیا گیا ۔ ستھر سالوں کے دوران مرکز یا ریاست کی کسی بھی حکومت نے عالمی تجارتی منڈیوں کے ساتھ کشمیر کا رابطہ قائم کرنے کی کوئی کوشش نہیں ۔ بلکہ جب بھی ایسا مطالبہ کیا گیا اس کو لائق توجہ نہیں سمجھا گیا ۔ موجود مرکزی سرکار اس معاملے میں سنجیدگی کا اظہار کررہی ہے ۔ خاص طور سے کووڈ 19 لاک داون ختم ہونے کے بعد اس بات کا کئی بار اعلان کیا گیا کہ کشمیر میں تیار ہونے والی اشیا کو برآمد کرنے کی معطل سرگرمیوں کو دوبارہ بحال کیا جائے گا ۔ بلکہ سیب اور دوسرے میووں کو عالمی منڈیوں تک پہنچانے کا یقین دلایا جارہاہے ۔ یہاں یہ بات دوہرانا غلط نہ ہوگا کہ کشمیر کے بادام اور اخروٹ صنعت کو اس وجہ سے زوال آگیا جب ان خشک میووں کو عالمی منڈیوں تک پہنچانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی ۔ پچھلے کئی سالوں سے ایسے ڈرائی فروٹ کے استعمال کو کافی وسعت مل گئی ہے ۔ کئی بیماریوں پر قابو پانے کے لئے ڈرائی فروٹ کے استعمال کو طبی حلقوں میں سخت زور دیا جاتا ہے ۔ اس حوالے سے بادام اور اخروٹ کھانے کا مشورہ دیا جارہاہے ۔ اس وقت دنیا میں شوگر اور ایسی ہی کئی بیماریاں بڑی تیزی سے پھیل رہی ہیں ۔ آبادی کا ایک بڑا حصہ ان بیماریوں کاشکار ہے ۔ ایسی بیماریوں سے بچائو کے لئے بادام اور اخروٹ کے استعمال پر زور دیا جارہاہے ۔ ادویات اور گوشت کے استعمال کے بجائے ڈرائی فروٹ کے استعمال کو زیادہ بہتر سمجھا جاتا ہے ۔ ان بیماریوں کے ماہر ڈاکٹر مشورہ دیتے ہیں کہ بادام اور اخروٹ کے روزانہ استعمال سے ان بیماریوں کو قابو میں کیا جاسکتا ہے ۔ جس طرح ورزش اور کسرت پر زور دیا جاتا ے اسی طرح ڈرائی فروٹ کے استعمال کو لازمی قرار دیا جاتا ہے ۔ اس تناظر میں یہ بات ہر گز مشکل نہیں کہ کشمیر میں پیدا ہونے والے میووں خاص کر ڈرائی فروٹ اور کشمیری سیب کو عالمی منڈیوں میں مانگ بڑھ جائے گی ۔ ایسا ہوا تو ملک کو بیرونی زرمبادلہ بھی مل جائے گا ۔ اس کے لئے سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے ۔ یہ بات اپنی جگہ کہ کشمیر کے کسان ابھی اس بات سے بے خبر ہیں کہ عالمی مارکٹ میں جگہ پانے کے لئے کس طرح کی کوششوں کی ضرورت ہے ۔ ورلڈ مارکیٹ میں مال بھیجنے کے لئے کس طرح کا معیار چاہئے ہم اس سے باخبر نہیں ہیں ۔ اسی طرح پیکنگ اور مارکیٹنگ کے دوسرے ضوابط کو سمجھنا لازمی ہے ۔ روایتی طریقوں کے بجائے جدید اصولو ضوابط کا خیال رکھنا ضروری ہے ۔ اب یہ سرکار کی ذمہ داری ہے کہ ان ضوابط کو اپنانے کے لئے تاجروں کو باخبر کیا جائے ۔