سرکار کی طرف سے بیٹی بچائو اور بیٹی پڑھائو کے لئے بڑے پیمانے پر کوششیں ہورہی ہیں ۔ اسکیم کے تحت بیٹیوں اور ان کے والدین کو کئی طرح کی مراعات دی جاتی ہیں ۔ تاکہ والدین اپنی بیٹیوں کو نظر انداز نہ کریں ۔ سماج میں ان کا وقار بڑھانے کے لئے انہیں پڑھائی کے علاوہ شادی کے لئے اضافی رقم بھی دی جاتی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وجہ سے لڑکیوں کو کافی سہارا ملا اور یہ اپنا مرتبہ بلند کرنے میں کسی حد تک کامیاب ہوئیں ۔ تاہم بدقسمتی یہ ہے کہ سماج میں جنسی جرائیم اور دوسری برائیاں بڑھ جانے سے خواتین پر کافی برا اثر پڑا ہے ۔ خواتین کو تنگ کئے جانے اور استحصال کرنے کے علاوہ ان کے جنسی استحصال کے واقعات میں اضافہ ہورہاہے ۔ دفتروں ، بینکوں اور کارخانوں کے اندر کام کرنے والی خواتین کو ستایا جاتا ہے ۔ اسی طرح خواتین کو گھریلو تشدد کا سامنا ہے ۔ خواتین ان جرائم سے محفوظ رکھنے کے لئے سرکار نے سخت ترین قوانین بنائے ۔ لیکن لوگ آئین اور قانون کی عمل آوری کو بالائے طاق رکھ کر خواتین کو ہراساں ، اغوا اور قتل کرتے ہیں ۔ چاہئے تو یہ تھا کہ قوانین کی عمل آوری سے خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں کمی آجاتی ۔ لیکن ایسے جرائم میں بڑی تیزی سے اضافہ ہورہاہے ۔ عالمی سطح کے اداروں خاص کر خواتین کے تحفظ اور ان کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں نے کئی بار اس حوالے سے تشویش کا اظہار کیا ۔ بلکہ یواین جنرل سیکریٹری کی طرف سے اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا گیا ۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ خواتین کے لئے کام کرنے کا ماحول سازگار بنایا جائے اور گھریلو تشدد سے انہیں نجات دلائی جائے ۔ انہوں نے ایسے ممالک حکمرانوں اور عوام سے خاص طور سے اپیل کی جہاں خواتین کے خلاف تشدد نے برا رخ اختیار کیا ہے کہ خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کو یقینی بنایا جائے ۔ لیکن کسی نے ان کی اپیلوں کی طرف کان نہیں دھرا اور کوئی بھی عمل نہیں کیا ۔ ہندوستان میں اس وقت صدر مملکت دھروپدی مرمو ہیں جو پسماندہ طبقوں سے تعلق رکھنے والی خاتون ہے ۔ کئی خواتین مرکزی سرکار کی کابینہ کا حصہ ہیں ۔ بلکہ مالی امور اور تعلیم جیسے شعبے خواتین کی دسترس میں ہیں ۔ اس کے باوجود خواتین کو جسمانی تشدد اور ذہنی دبائو کا شکار بنایا جارہاہے ۔ جو ادارے بظاہر عزت داری سے کام لیتے ہیں اور قوم کے اندر اپنی اچھی شبیہ بناچکے ہیں ۔ وقت آنے پر سب خواتین کے معاملے میں گناہ گار ظاہر ہوئے ہیں ۔ صحافت ، طبی ادارے ، ریلوے یہاں تک کہ پولیس بھی اس معاملے میں مجرم ثابت ہوچکے ہیں ۔ جموں کشمیر کی حالت کچھ بہتر نہیں ۔ بلکہ یہاں پچھلے ایک سال کے دوران ایسے واقعات میں 16 فیصد کا اضافہ دکھایا گیا ہے ۔
جموں کشمیر کے حوالے سے یہ بات سخت تشویش کی باعث ہے کہ پچھلے تین سالوں کے دوران یہاں 10 ہزار خواتین لاپتہ ہوچکی ہیں جن میں ایک ہزار سے زائد لڑکیوں کی عمر 18 سال سے کم ہے ۔ کم عمر لڑکیوں کا اس طرح سے لاپتہ ہونا کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے ۔ بلکہ با حیا اور حساس سماج کے اندر ایسے واقعات کا پیش آنا ایک المیہ ہے ۔ اس کے اسباب چاہئے کچھ بھی ہوںیہاں یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ اس طرح کے واقعات کسی بھی سماج کو کھوکھلا کرنے کا باعث بن سکتے ہیں ۔ ممکن ہے کہ شادیوں میں دیر اور مناسب جوڑ نہ ملنے کی وجہ سے اس طرح کے کچھ واقعات پیش آئے ہوں ۔ لیکن ہماری نظروں سے ایسے واقعات بھی گزرے ہیں جب نابالغ لڑکیاں جموں کشمیر کی حدود سے نکل کر ایسے لوگوں کے تھے چڑھ جاتی ہیں جو ان کا بڑے پیمانے پر استحصال کرتے ہیں ۔ یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ لڑکیاں بہکاوے میں آکر دوسروں کے ہتھے چڑھ جاتی ہیں ۔ اس معاملے میں والدین کو مناسب کردار ادا کرنا ہوگا ۔ والدین کی لاپرواہی کی وجہ سے بھی ایسے واقعات پیش آتے ہیں ۔ لڑکیوں کو مناسب طریقے سے رہنمائی نہیں کی جاتی ۔ انہیں زمانے کے اونچ نیچ نہیں سمجھائے جاتے ۔ بلکہ سسرال جاکر ہر وقت گرداری کے حوالے دئے جاتے ہیں ۔ ایسے میں انہیں اصل راز بتانے کے بجائے چھپانے پر زور دیا جاتا ہے ۔ صحیح ہے کہ خواتین کو صبر وتحمل سے کام لینا چاہئے ۔ لیکن جبر حد سے بڑھ جائے تو بغاوت کرنے میں کوئی قباحت نہیں ۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ لڑکیاں جرائم کا شکار یا اس کا حصہ بن جاتی ہیں ۔ لڑکیوں کے خلاف جرائم میں اس بات کا خاص طور سے ذکر کیا جاتا ہے ۔ سرینگر کے مصروف بازاروں میں خواتین پر تیزاب چھڑکنے اور چھرا گھونپنے کے واقعات پیش آئے ۔ سرکار نے عورتوں کے لئے مخصوص تھانے قائم کئے ۔ خواتین پولیس کو گشت پر لگادیا گیا ۔ لیکن جرائم کو جب بھی نہیں روکا جاسکا ۔ اس میں برابر اضافہ ہوتا گیا اور آج حالت یہ ہے کہ خواتین کی گمشدگی اور ان کے خلاف جرائم کے واقعات میں کمی کے بجائے اضافہ سامنے آرہاہے ۔ یہ پورے سماج کے لئے شرمندگی اور تشویش کا سبب ہے۔