دوسرے کئی ممالک کی طرح ہندوستان میں بھی عالمی یونانی دن منایا گیا ۔ جموں کشمیر میں اس حوالے سے اتوار کو ایک بڑی تقریب کا انعقاد سرینگر میں کیا گیا ۔ اس تقریب میں محکمہ صحت کے کئی کارکنوں کے علاوہ محکمے کے سربراہ نے شرکت کی ۔ یونانی عالمی دن ہر سال 11 فروری کو معروف ہندوستانی طبی اسکالر حکیم اجمل خان کی یاد میں منایا جاتا ہے ۔ حکیم اجمل خان طب یونانی کے ماہر اور سماجی کارکن تھے۔ انہوں نے ہندوستان میں طب یونانی کو فروغ دینے میں اہم رول ادا کیا ہے ۔ آپ ملک کے کئی بڑے سیاست دانوں ، منتظمین اور اعلیٰ شخصیات کے ذاتی اور خاندانی معالج رہے ہیں ۔ اس کے علاوہ عوام کے لئے آپ ایک مسیحا کی حیثیت رکھتے تھے ۔ انہوں نے یونانی طبی تعلیم کو ایک باضابطہ شعبہ بنانے کے لئے بنیادی کام انجام دیا ۔ طبیہ کالج کی بنیاد ڈال کر انہوں نے اس شعبے کو نئی نسل تک پہنچانے کی راہیں کھول دیں ۔ آگے جاکر ان کے کام کو کافی شہرت ملی ۔ آج کئی ممالک میں جو یونانی طبی کالج اور یونیورسٹیاں قائم ہیں وہ ان کے شروع کئے گئے کام کا نتیجہ ہے ۔ ان کے اس کام کے اعتراف اور اعزاز میں ان کے یوم پیدائش کو عالمی یونانی ڈے کے طور منایا جاتا ہے ۔
طب یونانی کی ابتدا بہت پہلے ہوئی ہے ۔ قدیم انسانی تاریخ بتاتی ہے کہ مصر کے علاوہ بابل میں اپنے زمانے کی عظیم سلطنت قائم تھی جہاں فن طب کی ابتدا ہوئی ۔ بابل سلطنت کے زوال کے بعد سارے علوم و فنون یونان منتقل ہوئے ۔ جہاں ان کی خوب پرورش ہوئی اور کافی فروغ ملا ۔ اس حوالے سے فن طب کو یونان سے منسوب کیا جارہاہے ۔ یونان میں ہی آگے چل کر صحت سے متعلق دیومالائی اثرات اور توہمات کو زائل کیا گیا ۔ بلکہ بقراط نے پہلی بار اسے باضابطہ ایک علم کے طور رائج کیا ۔ اس طرح سے یونان نے انسان کو سب سے پہلے صحت کی اہمیت اور اس کے باضابطہ علاج کی طرف راغب کیا ۔ طب کو یونان میں ہی ایک مستقل فن کے طور تسلیم کیا گیا ۔ یونانی تہذیب کے اسی اولین دور میں طب کے موضوع پر کئی کتابیں لکھی گئیں جن میں قدرتی جڑی بوٹیوں کے علاوہ علاج معالجے اور پرہیزی کھانوں سے متعلق جانکاری ملتی ہے ۔ آگے جاکر کئی دوسرے یونانی علما اور ماہرین طب نے اس موضوع پر کافی کام کیا ۔ کہا جاتا ہے کہ اسی کام کا جائزہ لے کر مسلمانوں نے طب یونانی کے حوالے سے لکھی گئی بعض کتابوں کا ترجمہ کیا ۔ یورپ نے ترجمہ کی گئی ان کتابوں کا فائدہ اٹھاکر اپنے یہاں طبی علوم پر کام کرنا شروع کیا اور اس کو جدید لائنوں پر ڈال کر انگریزی ادویات کو تیار کرنا شروع کیا ۔ بعد میں جب انگریزوں کا دنای پر غلبہ ہوا تو انگریزی ادویات کا رواج عام ہوا ۔ انگریزی ادویات میں یہ صفت پائی جاتی ہے کہ ان کا اثر دوسری ادویات کے مقابلے میں فوری طور محسوس کیا جاتا ہے ۔ اس وجہ سے عام لوگوں نے اس طریقہ علاج کو پسند کرنا شروع کیا ۔ اس کے علاوہ انگریزوں نے اپنے زیر تسلط علاقوں میں علاج معالجے کی ایسی سہولیات بہم پہنچائی جو عام لوگوں کے لئے فائدہ مند ثابت ہوئیں ۔ آسان دسترس کی وجہ سے اسے کافی مقبولیت ملی ۔ اب آہستہ آہستہ لوگوں کا معلوم ہورہاہے کہ روایتی طریقہ علاج جدید علاج معالجے کی نسبت بہت ہی کارگر اور کارآمد ہے ۔ انگریزی ادویات کے جو برے اثرات سامنے آرہے ہیں ان سے معلوم ہورہاہے کہ یہ انسان کے لئے راحت بخش نہیں بلکہ بہت ہی نقصان دہ ہے ۔ تاہم ایک بات ماننی ضروری ہے کہ جانچ اور اصل بیماری کا پتہ لگانے کئے میڈیکل سائنس نے جو مشنری فراہم کی اس کا کوئی نعم البدل نہیں ہے ۔ جس بیماری کی تشخیص پرانے معالجوں کے لئے ناممکن تھی آج معمولی نوعیت کے ہسپتالوں اور لیبارٹریوں میں ان کا آسانی سے پتہ چلایا جاتا ہے ۔ اس کے بعد علاج آسان ہوجاتا ہے ۔ یہ صحیح ہے کہ پرانے طریقہ علاج سے فائدہ اٹھاکر بیماریوں پر قابو پایا جاسکتا ہے ۔ انگریزی ادویات کو ترک کرکے یونانی اور مقامی طریقہ علاج کو اختیار کرنا فائدہ بخش ہے ۔ لیکن اس دوران جدید طبی آلات کو استعمال میں لانا ضروری ہے ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ طبی کالجوں اور آئر ویدک علاج کی سہولیات فراہم کرنے والے جدید طبی آلات سے فائدہ اٹھانے کے حق میں نہیں ہیں ۔ ان طبی مراکز کے اندر ایسا لگتا نہیں ہے کہ یہ انسانی صحت کے لئے کسی طور فائدہ مند ہوسکتے ہیں ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ جموں کشمیر میں انگریزی ادویات کا استعمال کئی طبقوں کے لئے بہت ہی نفع بخش کاروبار بن گیا ہے ۔ اس کاروبار کو انسانی صحت کے لئے استعمال کرنے کے لئے کوئی تیار نہیں ۔ یہاں تک کہ ڈاکٹر کہلانے والے افراد کے لئے یہ ایک بڑیا نڈسٹری بن گئی ہے ۔ ڈاکٹر صاحبان کسی طور یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ ان کا عہدہ کاروبار کے لئے نہیں بلکہ انسانیت کی خدمت کا پیشہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انگریزی ادویات کے استعمال پر زور دیا جارہاہے ۔ یہ ڈاکٹر صاحبان اپنے آمدنی اور آرام دہ زندگی چھوڑنے پر آمادہ نہیں ۔ جب تک یہ صورتحال ہے یونانی یا دوسرے روایتی علاج کے طریقوں کو دوبار سامنے لانا مشکل ہے ۔ یہاں تک کہ یونانی علاج کے ماہر بھی مریضوں کے لئے انگریزی ادویات تجویز کرتے ہیں ۔ یہ ان دوا ساز کمپنیوں کی کارستانی ہے جن کے لئے انگریزی ادویات کا کاروبارآمدنی کا بڑا ذریعہ ہے ۔