لوک سبھا انتخابات کے نتائج پہلے ہی سامنے آچکے ہیں ۔ بی جے پی کے لیڈروں کو پہلی بار اندازہ ہوا کہ تیسری بار حکومت بنانا کوئی آسان کام نہیں ۔ پارٹی کی ٹاپ لیڈر شپ کا خیال تھا کہ ان کے ہوتے ہوئے کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ہے ۔ ان لیڈروں نے جس طرح سے اپنے ایجنڈا کو آگے بڑھانے اور کئی معاملوں پر انتہا پسندانہ رویہ اپناکر تمام اہم امور طے کئے ان کو اندازہ نہیں تھا کہ ملک کا ووٹر ان باتوں کو نظر انداز کرکے اپنا ووٹ استعمال کرے گا ۔ رام کی سرزمین کے ووٹروں نے ان ساری کوششوں کو پس پشت ڈال کر اپنا ووٹ ڈالا جو رام کو اس کی جائے پیدائش پر واپس لانے کے لئے کی گئیں ۔ مودی سے پہلے کئی لیڈروں کو اس طرح سے ووٹروں کا غصہ دیکھنا پڑا تھا ۔ بلکہ ان کے پیش رو واجپائی کی کو محض ایک ووٹ کی کمی کی وجہ سے وزارت اعظمیٰ سے ہاتھ دھونا پڑا ۔ اس کے باوجود ان حقائق کو نظر انداز کرکے سیاسی دائو پیچ جاری رکھے گئے ۔ اس میں شک نہیں کہ پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے طور ابھر آئی ہے تاہم سادہ اکثریت سے محروم ہے ۔ اس کا تکیہ این ڈی اے پر ہے جس کے ساتھ ایسے بھی لوگ شامل ہیں جو کسی بھی وقت اپنی وفاداریاں بدل سکتے ہیں ۔اس وجہ سے کسی بھی موقعے سب کچھ الٹ پلٹ ہوجائیگا ۔ اس حوالے سے بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار کا نام خاص طور سے لیا جاتا ہے ۔ نتیش کمار کی عادت رہی ہے کہ عین موقع پر بازی الٹ دیتے ہیں ۔ انہوں نے انتخابات سے پہلے این ڈی اے سے ناطہ توڑ کر اپنا ایک اتحاد بنانے کی کوشش کی تھی ۔ بعد میں انہیں کوئی بازی کھیلنے سے باز رکھا گیا اور این ڈی اے کے ساتھ دوستی بنائے رکھی ۔ حکومت بنانے کی چابی ان کے ہاتھ میں ہے ۔ وہ پلٹ جائیں تو سارا کھیل ہی بدل سکتا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے دونوں اتحادوں کے ساتھ راہ ورسم ہیں ۔ ادھر یہ بھی اطلاع ہے کہ مودی اور راجیو دونوں کا ان کے ساتھ رابطے میں ہیں ۔ تاہم کسی کو یقین نہیں کہ ان کی بات کو یقینی مان جائیں ۔ وہ اندر جاکر کچھ اور باہر آکر کچھ اور بولنے کے عادی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی پارٹی تاحال یقین دلانے میں ناکام رہی ہے کہ اس کے پاس حکومت بنانے کے لئے مطلقبہ تعداد موجود ہے ۔ این ڈی اے کی طرف سے وزیراعظم نریندر مودی نے یہ اعلان ضرور کیا ہے کہ وہ تیسری بار حکومت بنائیں گے ۔ ان کا کہنا ہے کہ عوام نے انہیں ووٹ دے کر نئی حکومت بنانے کا اعتماد دیا ہے ۔ تاہم مخالف اتحاد کا خیال ہے کہ لوگوں نے جو رائے دی ہے وہ تبدیلی کی عکاسی کرتی ہے ۔ اس لئے اپوزیشن کو دعوت دے کر حکومت بنانے کا موقع دینا چاہئے ۔ کئی حلقوں کا مودی کی رائے سے اتفاق ہے نہ راجیو کے دعوے کو صحیح سمجھتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ لوگوں نے سیاست دانوں کے خلاف ووٹ دیا ہے اور انہیں اپنی اہمیت یاد دلائی ہے ۔ کانگریس پہلے ہی اس حوالے سے بدنام ہے کہ لوگوں کی رائے کا احترام کرنے کے بجائے اپنی من مانی کرتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں نے انہیں آسمان سے گراکر زمین پر دے مارا ۔ اب بی جے پی کے حوالے سے بھی یہی کہا جاتا ہے کہ لوگوں کے مسائل حل کرنے کے بجائے اپنے مخصوص ایجنڈا کو آگے بڑھانے کو فوقیت دی گئی ۔ اس دوران لوگوں کی مشکلات حد سے بڑھ گئی ۔ حکمرانوں کا خیال تھا کہ لوگوں کو کھلونے دے کر بہلایا پھسلایا جاسکتا ہے ۔ بلکہ کچھ لیڈروں نے بی جے پی کو بھی ہائے جیک کر کے اس کو اپنی ذاتی خواہشات کے ماتحت کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کا اعتماد اٹھاگیا اور لیڈروں کے تین سو اور چار سو سیٹوں کے دعوے کو زمین بوس کیا گیا ۔ یہ کچھ حلقوں کا حال نہیں کہ انہوں نے خاص ذہنیت کا اظہار کرتے ہوئے سیاسی لیڈروں کو کہیں ٹکنے نہیں دیا ۔ بلکہ پورے ملک کے ووٹروں نے اپنے ووٹ کا اس طرح سے استعمال کیا کہ مضبوط سے مضبوط سیاسی لیڈر بھی دھڑام سے نیچے آگئے ۔ ایسے علاقوں میں جہاں سے کانگریس اور انڈیا اتحاد خود کو بہت ہی مضبوط سمجھتا تھا سرے سے ہی قابل اعتنا نہیں سمجھا گیا ۔ اسی طرح بی جے پی نے جن ریاستوں کو آگے سو سال تک بوتل کے جن کی طرح اپنے ماتحت کر رکھا تھا اچانک بوتل سے باہر آکر اپنے مالک کے خلاف بولنے لگا ۔ جموں کشمیر کے ووٹروں نے اس حوالے سے کچھ زیادہ ہی چالاک بنتے ہوئے اپنے ووٹ کا استعمال کیا ۔ آنکھوں پر بٹھائے جانے والے دو وزراء اعلیٰ کو خطر میں نہ لاکر انہیں اپنے گھر کا راستہ دکھایا ۔ اس حوالے سے بارھمولہ کے عوام نے زیادہ چابک دستی سے کام لیا اور عمر عبداللہ کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ۔انہوں نے تہار جیل میں قید انجینئر رشید کے حق میں ووٹ کا استعمال کیا ۔ اسی طرح کی رائے دہی کا استعمال پنجاب کے ووٹروں نے کیا جنہوں نے طویل عرصے سے نظر بند ایک سیاسی قیدی کو ووٹ دے کر کامیاب بنایا ۔ کئی گم نام امیدواروں کو کامیاب بنایا جبکہ ان کے مقابلے میں موجود معروف سیاسی رہنمائوں کو شکست سے دوچار ہونا پڑا ۔ اس طرح سے ووٹروں نے سیاسی لیڈروں کے چہروں پر زور دار تھپڑ مارا جس سے ان کے ہوش اڑ گئے ہیں ۔
