اس شخص کی لاش تین دن بعد دریا سے نکالی گئی جس نے زڈی بل میں دریائے جہلم میں چھلانگ لگاکر خود کشی کی تھی ۔ غوطہ خوروں نے کافی محنت کرکے یہ لاش نزدیکی علاقے سے حاصل کی ۔ اس دوران اس شخص کے گھر والوں پر کیا گزری اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔ اس سے پہلے اسی مقام پر ایک دوشیزہ نے دریا میں کود کر اپنی جان لے لی ۔ جموں میں بھی خودکشی کا ایک واقعہ پیش آیا ۔ ایک ہفتے کے دوران خود کشی اور خود کشی کی کوشش کے کئی واقعات پیش آئے ۔ بارھویں جماعت کے نتائج سامنے آئے تو جنوبی کشمیر میں مبینہ طور ایک طالبہ نے کم پوئینٹس ملنے پر اپنی جان لے لی ۔ جبکہ کئی مایوس طلبہ کو بڑی مشکل سے جان لینے سے روکا گیا ۔ بتایا جاتا ہے کہ پچھلے سال ملک میں جو ایک ہزار لوگ خود کشی کی وجہ سے مارے گئے ان میں نصف کے لگ بھگ جموں کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں ۔ خودکشی کرکے زیادہ تر نوجوان اپنی جان لیتے ہیں ۔ یہ بڑی مایوس کن بات ہے کہ جموں کشمیر میں خود کشی کے واقعات بڑی تیزی سے بڑھ رہے ہیں ۔ کئی حلقوں کی کوششوں اور نصیحتوں کے باوجود نوجوان اپنی جان لینے پر تلے ہوئے ہیں ۔ والدین اپنے بچوں کی دیکھ ریکھ کرنے اور انہیں اس طرح کے کاموں سے روکنے میں ناکام ہورہے ہیں ۔ اس وجہ سے خود کشی کی شرح بڑھ رہی ہے ۔ خود کشی کا رجحان معمولی بات نہیں ہے بلکہ پورے سماج کے لئے لمحہ فکریہ ہے ۔ سماج کی اس معاملے میں بے حسی انتہائی افسوسناک بات ہے ۔ قریب قریب ہر علاقے بلکہ شہر اور گائوں ہر جگہ سماجی بہبود کا ایجنڈا لے کر کمیٹیاں پائی جاتی ہیں ۔ ایسی کمیٹیاں سماج کے خدمت اور بیداری کا کام اناجم دینے کے نام پر بڑے بڑے دعوے کررہی ہیں ۔ لیکن ایک سنگین مسئلے کو لے کر ایسے تمام ادارے کوئی نمایاں کام انجام دینے میں ناکام ہیں ۔ ایسی کمیٹیوں میں زیادہ تر معزز اور تجربہ کار شہری شامل ہیں ۔ ایسے شہریوں کے لئے اتنا کافی نہیں کہ یہ قراقلیاں اور عصا لے کر اپنی چودھراہٹ ظاہر کریں ۔ بلکہ سماجی مسائل حل کرکے عملی کام انجام دینے کی ضرورت ہے ۔ سوپور میں کچھ عرصہ پہلے جب خود کشی کا ایک واقع پیش آیا تو معلوم ہوا اس کے پس پردہ سماجی کارکنوں کی غفلت کارفرما ہے ۔ اس وقت کئی سماجی تنظیموں نے اعلان کیا تھا کہ ایسے واقعات کو روکنے کے لئے بڑے پیمانے پر کام کیا جائے ۔ لیکن مارے جانے والے فرد کے ساتھ اس طرح کے تمام دعوے بھی دفن ہوگئے ۔ سوپور کے اسی علاقے میں بعد میں بھی خودکشی کے واقعات پیش آئے لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی ۔ ان واقعات کے لئے اکثر و بیشتر مارے جانے والے افراد کے ہی ملزم اور مجرم ٹھہرایا جاتا ہے ۔ اس طرح سے اپنی ذمہ داریوں سے منہ موڑ کر سماجی ادارے نوجوانوں اور مجبور افراد کو اللہ کے رحم و کرم پر چھوڑتے ہیں ۔ یہ ایسی صورتحال کا انتہائی افسوسناک پہلو ہے ۔
یہ بات واضح ہے کہ ہمارا سماج خود کشی کے واقعات کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے ۔ یہاں اس طرح کا ماحول ہرگز نہیں پایا جاتا تھا ۔ بلکہ ایسے حادثات کا تصور بھی نہیں کیا جاتا تھا ۔ لیکن اب پورے معاشرے کو ایسے واقعات نے اپنے حصار میں لیا ہے ۔ نوجوانوں کو اس بات کی عادت نہیں تھی کہ کماکر اپنی ضروریات پوری کریں ۔ لوگ اپنی بنیادی ضروریات گھر سے ہی پورا کرتے تھے اور محنت مزدوری کی کسی کو ضرورت نہیں پڑتی تھی ۔ راشن ، سبزیاں اور دیگر روزمرہ کی اشیا گھر میں تیار کرکے اپنا پیٹ پالا جاتا تھا ۔ دوسری ضروریات بہت ہی محدود تھی۔ اس وجہ سے زیادہ خرچہ نہیں آتا تھا ۔ لیکن نوجوانوں نے اب اپنی ضروریات میں بے حد اضافہ کیا ہے ۔ کپڑوں کے دو جوڑوں کے بجائے پوری دکان گھر میں موجود رہتی ہے ۔ میک اپ کے سامان سے پوری الماری بھری رہتی ہے ۔ ایسے ساز و سامان آسمان سے نہیں اترتے بلکہ ان کے لئے کافی خرچے کی ضرورت پڑتی ہے ۔ آن لائن شاپنگ کے رجحان سے اخراجات میں کافی اضافہ ہوگیا ہے ۔ اس کے ساتھ آمدنی کے وسائل محدود ہوگئے ہیں ۔ بلکہ نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ جو چیزیں خود محنت کرکے تیار کی جاتی تھیں وہ بھی بازار سے خریدنا پڑتی ہیں ۔ اس کے واضح اثرات ہماری زندگی پر پڑرہے ہیں ۔ صفر آمدنی کے ساتھ بڑھتے اخراجات نے زندہ رہنا مشکل کردیا ہے ۔ اس طرح کے ماحول کے اندر نوجوانوں کو حوصلہ افزائی کرنے کے علاوہ ان کی رہنمائی کرنے کی ضرورت ہے ۔ لیکن ایسے لوگ موجود نہیں جو یہ کام انجام دیں ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ والدین کے علاوہ خاندان کے دوسرے ذی شعور افراد بھی اس حوالے سے لاتعلقی اختیار کئے ہوئے ہیں ۔ یہ کام بھی سرکاری اہلکاروں کو کرنے کے لئے چھوڑ دیا گیا ہے جو کسی طور ممکن نہیں ۔ سرکاری اہلکار اس حوالے سے کوئی جانکاری کیمپ منعقد بھی کریں تو اس کے وا اثرات برآمد نہیں ہوسکتے جو اپنے لوگوں کی نصیحت سے نکل سکتے ہیں ۔ یہ کام جذبے اور محبت سے کرنا ہوگا جب ہی خودکشی کے واقعات کو روکا جاسکتا ہے ۔ اس حوالے سے اپنا پن دکھایا جائے تو تبدیلی کا آنا یقینی ہے ۔ نوجوانوں کے اندر پائی جانے والی مایوسی انہیں خودکشی کے اقدام تک لے جاتی ہے ۔ یہ مایوسی دورکرنا ضروری ہے ۔ گوکہ یہ مشکل کام ہے ۔ لیکن تہیہ کیا جائے تو ناممکن نہیں ہے ۔ یہ کام بہر حال انجام دینا ضروری ہے ۔
